کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 29
زبان میں آرڈیننس کہتے ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حالات کے تقاضا کے تحت ایک سر اٹھانے والی برائی کی روک تھام کیلئے ایسے لوگوں سے اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی سہولت کو بطور تعزیر چھین لیا تھااور اکثر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمین نے اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ عنہ سے تعاون کے طور پر آپ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ جیسا کہ ابن رشد قرطبی اپنی کتاب ’’بدایہ المجتہد‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’وکان الجمہور غلبواحکم التغلیظ فی الطلاق سدا للذریعة ولکن تبطل ذلك الرخصة الشریعة والرفق المقصود فی قوله تعالیٰ: لعل اﷲ یحدث بعد ذلك امرا۔‘‘ (بدایة المجتہد ج۲، ص۶۶، مطبوعه مصر، بحوالہ مقالات ص۱۹۸) یعنی جمہور نے سد ذریعہ کے طور پر تین طلاق کو مغلظ مان لیا ہے۔ حالانکہ اس سے اﷲ تعالیٰ کی وہ رحمت و شفقت اور رخصت ختم ہو جاتی ہے جو اﷲ تعالیٰ کے اس قول ’’لعل اﷲ یحدث بعد ذلک امرا‘‘ میں ہے۔ اس طبقہ کے کچھ وسیع النظر علماء اپنے سابقہ موقف میں زمانہ کے تقاضوں کے تحت لچک پیداکرنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ (۴) چوتھا گروہ وہ ہے جو آپ رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد کو (اگر یہ اجتہاد تھا تو) درست نہیں سمجھتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نص کی موجودگی میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے جب صحیح روایات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دور نبوی، صدیقی اور فاروقی کے ابتدائی دو تین سالوں تک کا تعامل امت یہی رہا کہ تین طلاق کو تین نہیں بلکہ ایک ہی شمار کیا جاتا تھا‘ تو پھر کسی آیت یا روایت سے بیک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی واقع ہونے کے معنی نکالنا درست نہیں۔ اس گروہ میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو تطلیق ثلاثہ میں تین کے وقوع کے قائل نہیں۔ یہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو اجتہادی غلطی قرار دینے کے بجائے یہ کہنا بہتر سمجھتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ سیاسی اور تعزیری تھا۔ یہ گروہ دور فارورقی سے لے کر آج تک بلا انقطاع