کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 27
فیصلہ کسی عدالت میں بطور نظیر بھی پیش نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ عدالت میں عدالتی نظائر کام آتے ہیں حکام کے انتظامی یا سیاسی یا اصلاحی اقدامات کام نہیں آتے۔‘‘
اس کے جواب میں جناب مولانا شمس پیر زادہ صاحب فرماتے ہیں:
’’سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ فیصلہ کی حیثیت عدالتی نہیں، بلکہ سیاسی اقدام کی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یکجائی تین طلاقوں کو نافذ کرنے کی جو علماء یہ توجیہ کرتے ہیں کہ اس کا نفاذ محض تعزیراً کیا گیا تھا‘ ان کی یہ توجیہ کیوں غلط قرار دی جائے؟ مزید یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ عدالتی نہ ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے‘،تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمین کے فتوے ‘ کہ ان کی حیثیت بھی عدالتی فیصلوں کی نہیں‘ حجت کس طرح بن سکتے ہیں؟‘‘ (مقالات علمیہ ص۲۱۶)
دیکھا آپ نے عامر عثمانی صاحب بھی جو متعصب حنفی ہیں اور شمس پیرزادہ صاحب بھی دونوں آپ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو ’’شرعی‘‘ کے بجائے ’’سیاسی اور تعزیری یا انتظامی اور اصلاحی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
(6) اسی سیمینار کے ایک اور مقالہ نگار جناب حفیظ الرحمن صاحب قاسمی فاضل دیوبند فرماتے ہیں:
’’اگر تین طلاق سے مراد ’’انت طلق ثلاثا‘‘ ہے تو آخر دور نبوت اور دور صدیقی کے تعامل کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کس مصلحت سے بدلا؟ وہ کوئی شارع اور قانون ساز تو تھے نہیں، پھر قانون سازی بھی ایسے مسئلے میں کہ جس میں دور رسالت اور دور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تعامل موجود ہو۔ جب مسلم شریف کی روایت ابو الصہباء کے متعلق ہم کچھ عرض کرتے ہیں تو فوراً وہی اعتراض ہم سے کیا جاتا ہے… اب آپ ہمیں واضح طور سے دوٹوک انداز میں یہ بتائیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیلئے دور رسالت اور دور صدیقی کے تعامل کا بدلنا اس روایت سے بالکل واضح ہے آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کیوں کیا؟ (مقالات علمیہ ص۲۰۱)
فیصلہ کی شرعی حیثیت کی تعیین میں اختلافات:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو مشروع قرار دینے والے بالعموم وہی حضرات ہیں جو