کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 25
ہمارے خیال میں سب سے پہلے بزرگ تو خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق ہیں‘ جنہوں نے یہ حکم نافذ کرتے وقت یہ واضح فرما دیا تھا کہ یہ ان کا اپنا حکم ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کرتے وقت ہر گز یہ نہیں فرمایا کہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کا حکم یا حدیث ہے۔ نہ ہی کسی قرآنی آیت سے آپ رضی اللہ عنہ نے استدلال فرمایا‘ جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لیتے وقت استدلال فرمایا تھا۔ اب بتائیے کہ ہم اسے آپ رضی اللہ عنہ کا سیاسی اور تعزیری حکم نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں؟
آپ رضی اللہ عنہ کی اپنی شہادت کے بعد کسی دوسرے کی ضرورت تو نہیں رہ جاتی تاہم چند نام اور بھی پیش خدمت ہیں-
مشہور حنفی امام طحطاوی اپنی تصنیف حاشیہ درمختارج ۲ص۱۰۵پر لکھتے ہیں:
’’وانه کان فی الصدر الاول اذا ارسل ثلاثة جملة لم یحکم الا بوقوع واحدة الی زمن عمرثم حکم بوقوع الثلاثة سیاستاً لکثرته بین الناس‘‘(بحوالہ مقالات علمیہ ص۲۳۲)
’’پہلے زمانہ میں تاخلافت عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو ایک ہی قرار دی جاتی ‘ پھر جب لوگ بکثرت ایسا کرنے لگے تو آپ رضی اللہ عنہ نے سیاستاً تین طلاقوں کے تین ہی واقع ہونے کا حکم نافذ کر دیا۔‘‘
اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ تو آپ رضی اللہ عنہ کے اس حکم کو درہ فاروقی سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ ’’اعلام الموقعین‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’جب لوگوں نے بے خوف ہو کر بکثرت اسے (یعنی ایک مجلس میں تین طلاق دینا) شروع کر دیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے بحیثیت قانون یہ حکم فرمایا کہ میں آئندہ تین طلاقوں کو تین ہی شمارکروں گا یہ صرف اس لیے تھا کہ لوگ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے باز آجائیں۔ ورنہ پھر تین سال تک یہ حکم شرعی کیوں جاری نہ کیا؟ پس یہ حکم شرعی نہیں‘ بلکہ قانونی حیثیت رکھتا ہے کہ لوگ ڈر جائیں… یہ فتویٰ گویا ایک درہ فاروقی تھا جو ایسے لوگوں کو سزا کے لیے تھا نہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی شرعی حکم کو بدل دیا۔ نعوذ باﷲ من ذلك‘‘ (اعلام الموقعین اردو‘ ص۳‘۴)
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے اس اقتباس سے دو باتیں معلوم ہوئیں: