کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 24
کے متعلق گزارش یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ لوگ طلاق ثلاث کی حرمت کو جانتے ہوئے اب اس کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ کی سیاست حکیمانہ نے ان کو اس امر حرام سے باز رکھنے کے لیے بطور سزا حرمت کا حکم صادر فرمایا۔ اور خلیفہ وقت کو اجازت ہے کہ جس وقت وہ یہ دیکھے کہ لوگ اﷲ کی دی ہوئی سہولتوں اور رخصتوں کی قدر نہیں کر رہے اور ان سے استفادہ کرنے سے رگ گئے ہیں‘ تو بطور تعزیر انہیں ان رخصتوں اور سہولتوں سے محروم کر دے تاکہ وہ اس سے باز آجائیں… حضرت امیر المومنین نے یہ حکم نافذ کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’فَلَوْ اَنَّا اَمْضَیْنَاہ عَلَیْہِمْ‘‘ کاش! ہم اس کو ان پر نافذ کر دیں۔
ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آپؓ کی رائے تھی اور امت کو فعل حرام سے باز رکھنے کے لیے یہ تعزیری قدم اٹھایا گیا تھا۔ اس تعزیری حکم کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین نے پسند فرمایا اور اس کے مطابق فتوے دیئے‘‘ (مقالات علمیہ ص۲۴۱‘۲۴۲)
جنا ب پیر کرم شاہ صاحب ازہری کے اقتباس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
(۱) دور فاروقی سے پہلے دور نبوی صلی اللہ وسلم اور دور صدیقی میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔
(۲) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا تھا وہ دور نبوی صلی اللہ وسلم اور صدیقی کے تعامل کے برعکس تھا۔
(۳) آپ رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ آپ رضی اللہ عنہ کی سیاستِ حکیمانہ کا نتیجہ تھا اور آپ رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ بطور سزا صادر فرمایا تھا۔
(۴) اس کے بعد ہی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمین نے بھی ایسے تعزیری فتوے دینا شروع کر دیئے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو سیاسی قرار دینے والے دیگر حضرات:
مناسب معلوم ہوتا ہے ‘ یہاں ہم جناب ازہری صاحب کے علاوہ بھی چند بزرگان دین کی تحریریں اس سلسلہ میں نقل کر دیں، جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔