کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 23
اس اعتذار کے بعد اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں:۔
تطلیق ثلاثہ
قاری عبدالحفیظ صاحب ریسرچ اسسٹنٹ ادارہ ’’منہاج‘‘ کے تعاقب کے جواب میں
(۱) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی تھا یا شرعی؟
اس ضمن میں قاری صاحب موصوف نے جناب مولانا ابراہیم صاحب میر رحمۃ اللہ علیہ سیالکوٹی کا ایک اقتباس درج فرمایا ہے ‘ جس میںمولانا ابراہیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیک مجلس تین طلاق کو تین طلاق کے وقوع کے طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ سیاسی نوعیت کا نہیں ‘ بلکہ شرعی بنیادوں پر تھا۔ اتمام حجت کے طور پر قاری صاحب موصوف نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ مولانا ابراہیم صاحب موصوف غیر مقلد ہیں۔
اس اقتباس کے جواب میں اگر ہم کسی حنفی مقلد عالم کا ایسا ہی اقتباس پیش کر دیں ‘ جس میں یہ وضاحت موجود ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ شرعی نہیں بلکہ سیاسی اور تعزیری قسم کا تھا تو بات ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ اس ضمن میں پیر کرم شاہ صاحب ازہری (جو مسلکاً بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے علاوہ رویت ہلال کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔ مزید برآں ماہنامہ ’’ضیائے حرم‘‘ کے مدیر بھی ہیں) کا اقتباس ذیل پیش خدمت ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ پر پیر کرم شاہ صاحب کا تبصرہ:
آپ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:
’’لیکن ایک خلجان ابھی تک موجود ہے‘جس کا ازالہ از حد اہم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب طلاق ثلاث ایک طلاق شمار کی جاتی تھی تو الناطق بالصدق و الصواب‘ الفارق بین الحق والباطل ‘ حضرت امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے برعکس حکم کیوں دیا؟ تو اس