کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 20
کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل
مصنف: مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
پبلیشر: مکتبۃ السلام، لاہور
ترجمہ:
یہ کتابچہ دراصل ماہنامہ محدث میں شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں ادارہ منہاج سے وابسہ قاری عبدالحفیظ سے اعتراضات و شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں طلاق کے حوالے سے تمام مسائل کو بالدلائل واضح کر دیا ہے جس پر کوئی عالم بھی قدغن نہیں لگا سکتا-جس میں رسول اللہﷺکے دور میں طلاق کی صورت،مجلس واحد میںتین طلاقوں کا حکم، بعد میں صحابہ کرام کا عمل اور حضرت عمر کے بارے میں بیان کیے جانے والے مختلف واقعات کی اصلیت کی نشاندہی اور مجلس واحد کی تین طلاقوں کے موثر ہونے کے دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا جواب تحریر کیا گیا ہے-تطلیق ثلاثہ کے بارے میں پائے جانے والے چار گروہوں کا تذکرہ،انکار اور تسلیم کرنے والے علماء کے دلائل کا تذکرہ،تطلیق ثلاثہ سے متعلق ایک سوال کی وضاحت،مسائل میں باہمی اختلاف کی شدت کی وجہ تقلید کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عرض مؤلف
سہہ ماہی مجلہ "منہاج" اشاعت اپریل 1987ء میں میرا ایک مضمون بعنوان "خلفائے راشدین کی شرعی تبدیلیاں"شائع ہوا تھا۔اس مضمون میں میں نے پرویز صاحب اور جعفر صاحب پھلواروی کے اس اعتراض کا جواب پیش کیا تھا۔"خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین بالعموم اور حضرت عمر فاروق بالخصوص اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تبدیلیاں کرتے رہے ہیں۔"پھر ان حضرات نے نتیجہ یہ پیش فرمایا تھا کہ:۔"اگر خلفائے راشدین اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق پچیس تیس سنت ہائے رسول میں تبدیلیاں کرسکتے ہیں تو آخر ہم اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ایسی تبدیلیاں کیوں نہیں کرسکتے۔"اسی ضمن میں ایک مشہور مسئلہ"تطلیق ثلاثہ" بھی زیر بحث آیا جسے میں نے اپنے مضمون کے آخر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی "اجتہادی غلطیوں" کے ذیلی عنوان کے تحت درج کیا تھا۔اور بتلایا تھا کہ لےدے کے یہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں آپ کا فیصلہ کتاب وسنت کی منشاء کے خلاف تھا۔اب ادارہ منہاج نے غالبا"مسلکاً" حنفی ہونے کی وجہ سے میرے مضمون کو جوں کا توں شائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور قاری عبدالحفیظ صاحب ریسرچ اسسٹنٹ نے میرے دو صفحات کے اس آرٹیکل پر چودہ صفحات کے حواشی چڑھا کر اپنی طرف سے بھر پور تردید کے ساتھ شائع فرمادیا۔حالانکہ اگر ادارہ مذکور وسعت نظر سے کام لیتے ہوئے ان حواشی کے بغیر بھی چھاپ دیتا تو بھی اس پر کچھ الزام نہ آسکتا تھا کیونکہ کوئی بھی ادارہ یہ عبارت لکھنے کے بعد کہ "ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں"جوابدہی کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتاہے۔اور