کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 109
دوران دی ہوئی طلاق یا طلاقیں محسوب نہیں ہوں گی۔ اس نکاح کے بعد مرد کو اسی طرح تین طلاقیں دینے کا حق حاصل ہو گا، جس طرح پہلے نکاح کے وقت تھا۔ کیونکہ یہی بات نکاح و طلاق کے متعلق بتائے ہوئے شرعی قوانین کے مطابق ہے۔ اور جو لوگ پہلے نکاح کی طلاقیں بھی شمار کرنے بیٹھ جاتے ہیں تو اس کا بار ثبوت ان پر ہے، ہم پر نہیں … ہم آخر کیوں ایسی باتوں کا سراغ لگائیں یا ان کے دلائل تلاش کریں، جو شرعاً اور عقلاً دونوں طرح سے غلط معلوم ہوتی ہیں؟ یہاں یہ ذکر کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی منشا یہ ہے کہ جو مرد و عورت ایک دفعہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ہیں حتی الامکان ان میںجدائی بذریعہ طلاق کی نوبت نہ آئے۔ اسی وجہ سے باہمی تنازعہ کی صورت میں فریقین سے ثالثی سمجھوتہ کا حکم دیا گیا‘ حیض کی حالت میں طلاق کو ممنوع قرار دیا گیا، طلاقیں ایک کی بجائے تین مقرر ہوئیں‘ وقفہ وقفہ پر عدت کے دوران بیوی کو ایام عدت خاوند کے گھر پر گزارنے کا حکم دیا گیا اور اس دوران نان و نفقہ اور سکنیٰ کا بار خاوند پر ڈالا گیا تاکہ کسی وقت بھی میاں بیوی کو مل بیٹھنے کا موقع میسر آتا رہے اور ازدواجی تعلق میں اﷲ تعالیٰ نے ایسے تاثیر رکھ دی ہے کہ بعض دفعہ میاں بیوی کے تنازعات اس ذریعہ سے از خود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن فقہ حنفی والوں کا مزاج اس سے مختلف نظر آتا ہے وہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کر لیتے ہیں اور اگر خاوند اپنی بیوی کو محض ڈاک میں طلاق بھیج دے، خواہ عورت اپنے میکے میں بیٹھی ہو تو ان میں مفاہمت کی صورت نہیں سوچتے۔ البتہ ایسی طلاقوں کو موثر قرار دے دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جہاں کتاب و سنت کی روشنی میں فی الواقع جدائی کی نوبت آجاتی ہے، یعنی طلاق بائنہ ‘ تو اس وقت انہیں فریقین میں شارٹ کٹ یعنی حلالہ کا نکاح بھلا معلوم ہونے لگتا ہے … حالانکہ ایسا نکاح حرام ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ وسلم نے حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے‘ دونوں کو ملعون قرار دیا ہے۔ هذا ما عندی واﷲ اعلم بالصواب