کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 108
رجوع کے بعد بھی بیوی ہوتی ہے، رجوع کرنا یا نہ کرنا اس کی زوجیت پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ اس عدت کے دوران عورت کی رضا مندی کے بغیر بھی مرد کو حق رجوع حاصل ہوتا ہے اور اسی کی دلیل قرآن کریم کے درج ذیل الفاظ ہیں: فَطَلِقُّوْهُنَّ لِعَّدِتِهِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّةَ۔ (الطلاق:۱) جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لیے طلاق دو اور عدت کو شمار کرتے رہو۔ اور یہ خطاب مردوں کو ہے، عورتوں کو نہیں… اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ مطلقہ عورت خاوند کی زوجیت میںہو۔ ورنہ غیر عورت کی عدت گننے کا کسی کو کیا حق حاصل ہے؟ (۳) تیسری بات یہ ہے کہ جب عورت کو تین طلاقیں دے دی جائیں اور عدت گزر جائے تو وہ عورت بالکل غیر عورت کی طرح نہیں کہ اسی سے نکاح کیا جا سکے۔ جیسا کہ سوال کی آخری سطور میں ہے کہ: البتہ جب ایام عدت گزر جائیں تو وہ عورت بالکل غیر عورت کی طرح ہو گی‘ا ب اس سے بھی نکاح کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ ایسی عورت بالکل غیر عورت کی طرح نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ایسی عورت ہوتی ہے جسے اس کا خاوند تین طلاقیں دے چکا ہے اور یہ اب اس پر حلال نہیں ہو سکتی، تا آنکہ یہ عورت اپنی رضا مندی سے (بغیر حیلہ جوئی کے) کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے پھر وہ مرد اپنی رضا مندی سے کسی وقت اسے طلاق دے دے یا مر جائے، تو اس صورت میں ہی یہ عورت عدت گزارنے کے بعد اپنے پہلے خاوند پر حلال ہو سکتی ہے اور اس پر دلیل سورہ البقرہ کی آیت ۲۳۰ ہے: ’’فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِن بَعْدُ حَتیّٰ تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرهٗ‘‘ (۴) اور چوتھی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر مرد نے اپنی مطلقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کر لیا تو آیا پہلے نکاح کے دوران دی گئی طلاقیں محسوب ہوں گی یا نہیں؟ … بالفاظ دیگر کیا وہ جمع رہتی ہیں یا باطل ہو چکی ہوتی ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے نکاح کے