کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 107
الجواب بعون اﷲ الوہاب (۱) محترم سائل نے سوال کرنے میں معاملہ کو الجھا دیا ہے۔ جو کچھ بھی سمجھا ‘ ان کا ایک سوال تو یہ ہے کہ آیا رجوع طلاق کو باطل کر دیتا ہے یا نہیں؟ (اس سوال میں نکاح کی بات نہ کرنی چاہیے) تو اس کا جواب یہ ہے کہ رجوع طلاق کو باطل نہیں کرتا‘ بلکہ وہ طلاق شمار ہو گی۔ اس کی نقلی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب الطلاق کی ابتدا ہی میں اس کے پہلے باب میں بیان کرتے ہیں: ’’اِذَا طلّقتِ الْحَائِضُ یُعْتَدُّ بِذَالِکَ الَّطَلاق‘‘ ’’جب کوئی اپنی حائضہ بیوی کو طلاق دے دے تو وہ طلاق محسوب ہو گی یا نہیں؟‘‘ کے تحت لائے ہیں ‘ اور یہ اس کتاب الطلاق کی تیسری حدیث ہے، جس میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اﷲ صلی اللہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا‘ان سے کہیے کہ رجوع کر لیں۔ (الحدیث) اسی حدیث کے آخر میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ پوچھا گیا ’’آیا وہ طلاق شمار ہوئی تھی یا نہیں؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہاں ہوئی تھی‘‘ یہ طلاق حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حیض کی حالت میں دی تھی‘جبکہ حیض کی حالت میں طلاق منع ہے۔ تو جب حیض کی حالت میں غیر مسنون طریق پر دی گئی طلاق شمار ہو گی تو مسنون طریق پر دی گئی طلاق کیوں شمار نہ ہوگی؟ اور عقلی جواب یہ ہے کہ اگر طلاق شمار ہی نہ ہو تو رجوع کا کیا سوال ہے؟ اور یہ طلاق، طلاق کیوں ہے؟ (۲) دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدت کا پورے کا پورا عرصہ مطلقہ عورت اپنے خاوند کی زوجیت میں ہوتی ہے۔ لہٰذا سوال نامہ کے یہ الفاظ کہ ’’طلاق پوری طرح موثر نہیں ہوئی تھی اور بغیر نکاح کے ہی (رجوع کرنے پر) وہ اس کی بیوی بن جاتی ہے‘‘ بالکل بے معنی ہے۔ رجعی طلاقوں کی عدت کے دوران رجوع سے پہلے بھی وہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے اور