کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 102
صورت باقی نہ رہے گی جو اتفاقی ہو گی‘ نہ کہ منصوبہ بندی کے تحت! ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ آج کا المیہ یہ ہے کہ یکبارگی تین طلاق کو نہ مقلدین ناجائز اور کار معصیت سمجھتے ہیں اور نہ غیرمقلد۔ غیر مقلد‘ایسے شخص کو اگر طلاق رجعی کی راہ دکھا دیں تو اسے یہ کیوں کر معلوم ہو کہ اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے؟ اور مقلد حضرات‘ محض اس خطرہ سے بچنے کے لیے کہ کہیں یہ کسی اہل حدیث کے ہتھے نہ چڑھ جائے، اسے حلالہ کی راہ دکھا دیں تو بھی اس کا الو تو سیدھا ہو ہی جائے گا۔ آخر اسے اپنے جرم کی کیا سزا ملی؟ حالانکہ ہمارے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اصل سنت یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے والے کو سزا ضرور دی جانی چاہیے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس سنت کو نہ مقلد حضرات درخور اعتناء سمجھتے ہیں نہ اہل حدیث حضرات۔ البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ علماء کی اس بے حسی کے بعد اہل حدیث تو مجرم کو سنت کی راہ دکھلاتے ہیں، جبکہ حنفی حضرات کار حرام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں! سزا کا مستوجب کون؟ اس معاملہ کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بیک مجلس تین طلاق دینے کا جرم تو مرد کرتا ہے لیکن اس کے جرم کی سزا نکاح حلالہ کی صورت میں عورت کو دی جاتی ہے۔ مرد کو تو اہل علم و فتویٰ سرزنش تک کرنے کے روا دار نہیں ہوتے‘ مگر بیوی کو کسی کرایہ کے سانڈ کے ہاں شب بسری کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ ’’کرے کوئی اور بھرے کوئی‘‘ کی اس سے زیادہ واضح اور کوئی مثال ہو سکتی ہے؟ اس بے بس عورت نے اس ظلم و زیادتی کا اپنے خاوند سے اور اپنے رشتہ داروں سے یوں انتقام لیا کہ رات ہی رات میں حلالہ نکالنے والے مرد سے سیٹ ہو گئی اور اس نئے جوڑے نے عہد و پیمان کے ذریعہ اپنے رات ہی رات کے نکاح کوپائیدار کر لیا اور حلالہ نکلوانے والوں کی سب امیدیں خاک میں ملا دیں۔ا یسے واقعات آئے دن اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ ایک ایسا واقعہ میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں۔ ہوا یہ کہ کسی تاجر کی لڑکی کو اس کے خاوند