کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 101
غضب سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا ’’میری موجودگی میں کتاب اﷲسے یہ مذاق؟‘‘ آپ صلی اللہ وسلم کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص اجازت مانگنے لگا کہ ’’میںاس مجرم کو قتل نہ کردوں؟‘‘ آپ صلی اللہ وسلم نے ازراہ شفقت اس مجرم کو قتل کرنے کی اجازت نہ دی، تاہم اس واقعہ سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا شرعی نقطہ نظر سے کتنا بڑا گناہ اور مکروہ فعل ہے۔ مگر دور جاہلیت کی یہ عادت رسول اکرم صلی اللہ وسلم کی وفات کے بعد جلد ہی پھر عود کر آئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے اس بدعادت کو چھڑانے کیلئے تین طرح کے اقدامات کیے: (۱) آپ رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کو بدنی سزا بھی دیتے تھے۔ (۲) ایک مجلس کی تین طلاق کو آپ رضی اللہ عنہ نے تین ہی شمار کرنے کا قانون نافذ کر دیا۔ (۳) اور جب لوگوں نے اپنی عادت پر کنٹرول کے بجائے حلالہ کی باتیں شروع کر دیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے دونوں کیلئے رجم کی سزا مقرر کر دی۔ اس طرح یہ فتنہ کچھ مدت کے لیے دب گیا۔ گویا دور فاروقی میں بھی اس کار معصیت کی اصلاح صرف اس صورت میں ہوئی کہ حلالہ کے دروازہ کو سختی سے بند کر دیا گیا تھا۔ مگر آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا غیر مقلد ‘ کوئی بھی اکٹھی تین طلاق کو جرم سمجھتا ہی نہیں۔ بلکہ جہالت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار ‘ خواص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لیے تین طلاقیں دینا ضروری ہے۔ حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے، تاکہ عدت گزرنے کے بعد اگر زوجین کی پھر خواہش ہو تو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہو جائے۔ تاہم اگر بیوی سے اس قدر نفرت اور بگاڑ پیدا ہو چکا ہو اور وہ تازیست اپنی بیوی کو رشتہ زوجیت میں نہ لینے کا فیصلہ کر چکا ہو، تو پھر تین کا عدد پورا کر کے اپنی حسرت پوری کر لے۔ اور وہ بھی اس طرح کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دیتا جائے، تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی ’’حتی تنکح زوجاً غیره‘‘ کے علاوہ کوئی