کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 98
اصرار ہے تو لغت دیکھ لو)سامنے قاموس پڑی ہوئی تھی،میں نے بڑے غرہ کے ساتھ اس کی متعلقہ جلد گھسیٹی اور’’عَرَفَ’‘کا پورا کالم پڑھ ڈالا،لیکن’’عَرِفَ’‘باب’’سَمِعَ’‘سے اپنے معروف معنی میں میرے ذہن کے سوا اور کہیں وجود رکھتا ہو تو تب ملے۔ ’’مولانا نے تاڑ لیا کہ مجھے اپنے خیال میں سخت ناکامی ہوئی ہے اور قدرتی طور پر اس کا رد عمل بھی مجھ پر ایک سخت قسم کی کھسیاہٹ کی شکل میں ہو گا۔لیکن ان کی شفقت نے یہ گوارہ نہ کیا کہ وہ میری گستاخی کا مجھ سے انتقام لیں اور مجھے شرمندہ ہونے کے لیے چھوڑ دیں،فوراً میری تسلی کے لیے عربی میں فرمایا:’’کوئی بات نہیں ! اصیل گھوڑا بھی ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے۔’‘اس کے بعد میں نے کان پکڑے کہ اب میں کبھی مولانا صاحب کے سامنے اپنی عربی دانی کے زعم میں اس قسم کا کوئی بھی فقرہ زبان سے نہیں نکالوں گا۔ ’’متنِ حدیث کی حفاظت کا بحیثیت ایک شیخ حدیث کا مولانا کو جو اہتمام تھا،اس کا اندازہ بھی ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ایک دفعہ میں نے قراء ت کرتے ہوئے ایک حدیث کی عبارت ایک خاص تالیف کے ساتھ پڑھی۔مولانا نے اس کو ٹوکا اور ایک دوسرے نہج سے اس کو پڑھا۔میں نے فوراً قراء ت کی صحت پر اصرار کیا اور نحو کے اصولوں کے مطابق اس کی ترکیب بیان کر دی۔مولانا نے جواب میں فرمایا کہ نحو کے اعتبار سے تمھارا پڑھنا غلط نہیں ہے،لیکن میں نے اپنے شیخ سے یوں ہی سنا ہے۔مولانا کی یہ بات مجھے بڑی شاندار معلوم ہوئی۔میری آنکھوں کے سامنے متنِ حدیث کی صحت کی عظمت کی ایک تصویر کھینچ گئی اور دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش مجھے بھی حدیث پڑھانے کامرتبہ حاصل ہو اور میں بھی اپنے شاگردوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس حدیث کی روایت اپنے شیخ سے اس طرح سنی ہے۔ ’’اسما اور الفاظ کے بعد معانی کی باری آتی ہے،لیکن اس کے بارے میں مجھے