کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 97
ایک نام پر ٹوکنا شروع کیا تو ا ن کے ٹوکنے کا انداز لاکھ مشفقانہ سہی،لیکن واقعہ یہ ہے کہ مجھ پر طیش،شرمندگی اور گھبراہٹ کی ایسی ملی جلی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے سر سے پاؤں تک پسینہ آ گیا۔ ’’وہ ایک ایک نام کی صحت کا اس قدر اہتمام کرتے اورایک ہی طرح کے ناموں میں ایسے ایسے باریک فرق بتاتے کہ شروع شروع میں تو مجھے گمان ہوا کہ میں اس چیز پر کبھی قابو پا ہی نہیں سکوں گا،لیکن مولانا نے مجھے مایوسی کے صدمہ سے بچایا۔انھوں نے فرمایا کہ تمھیں اس چیز سے بالکل پہلی مرتبہ سابقہ پیش آیا ہے،اس لیے شبہہ نہیں کہ یہ چیز مشکل ہے اور اساتذہ حدیث اس کا بڑا اہتمام کرتے ہیں،لیکن یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔کچھ عرصہ مزاولت کے بعد تمھارے لیے بھی ایک جانی پہچانی چیزبن جائے گی۔چنانچہ مولانا کی یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی۔ہفتہ دو ہفتہ سے زیادہ کی مدت نہیں گزری ہو گی کہ کم از کم ترمذی کے رجال کا تو میں ماہر بن گیا۔یا تو اس چیز سے وحشت ہوتی تھی،یا یہ حال ہوا کہ ناموں کی تحقیق کرنا میرے لیے ایک دلچسپ مشغلہ بن گیا۔ ’’ناموں کے ساتھ ساتھ مولانا متن کی صحت کا بھی بڑا اہتمام کرتے تھے۔ممکن نہیں تھا کہ قراء ت کے وقت کوئی لفظ زبان سے غلط نکلے اور وہ اس غلطی کا نوٹس نہ لیں۔ایک مرتبہ میں نے’’عَرَفَ’‘کے لفظ کو باب’’سَمِعَ’‘سے پڑھ دیا۔مولانا نے فوراً ٹوکا’’أَنَا لَا أَعْرِفُ عَرِفَ‘‘(میں’’عَرِفَ’‘سے واقف نہیں ہوں)مجھے معلوم نہیں کہ کیوں یہ یقین تھا کہ میں نے صحیح پڑھا ہے۔چنانچہ میں نے بڑے زعم کے ساتھ جواب دیا کہ’’أَمَّا أَنَا فَلَا أَعْرِفُ عَرَفَ‘‘(اور یہ خاکسار آپ کے’’عَرَفَ’‘سے واقف نہیں ہے)اس گستاخانہ فقرہ پر کوئی اور ہوتا تو غالباً آپے سے باہر ہو جاتا،لیکن مولانا نے اگر کہا تو یہ کہا کہ’’رَاجِعِ اللُّغَۃَ‘‘(اگر تمھیں اس قدر