کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 96
آدمیوں کا بھی اختلاف نہ ہوتا۔‘‘ (ہندوستان میں علما و محدثین کی دینی خدمات از مولانا غازی عزیز،سہ ماہی مجلہ’’تحقیقاتِ اسلامی’‘علی گڑھ،دسمبر ۱۹۹۲ء،بحوالہ دبستانِ حدیث از مولانا محمد اسحاق بھٹی،ص: ۲۰۳) مورخ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا مرحوم کی ذات میں بہت سے اوصاف جمع فرما دیے تھے۔وہ تمام علومِ مروجہ میں مہارت رکھتے تھے۔وہ اونچے درجے کے محقق اور بلند پایہ مصنف تھے۔تدریس کا انھیں خاص ملکہ حاصل تھا اور حدیث میں وہ امامت پر فائز تھے۔‘‘(دبستانِ حدیث،ص: ۲۰۳) مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۹۷ء)کا شمار حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔وہ محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے علم و فضل اور علمِ حدیث میں یگانہ روزگار ہونے کے بڑے معترف تھے۔ہفت روزہ’’المنیر‘‘(AL MUNEER)جس کے مدیرِ اعلیٰ حکیم عبد الرحیم اشرف رحمہ اللہ تھے۔اگست ۱۹۵۵ء کی اشاعت میں مولانا اصلاحی کا مبارک پوری رحمہ اللہ پر ایک خصوصی مضمون شائع ہوا تھا،اس مضمون میں مولانا اصلاحی مرحوم لکھتے ہیں : مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ فی الواقع اپنے فن میں ماہر تھے۔جس وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا،نہ صرف عربی علوم کی تحصیل سے فارغ ہو چکا تھا،حدیث کی بھی بہت سی چیزیں نگاہوں سے گزر چکی تھیں۔کچھ عام درس میں،کچھ مطالعہ کے سلسلہ میں۔مجھے یہ گمان تھا کہ جب مولانا پڑھانا شروع کریں گے تو انھیں اندازہ ہو گا کہ میں کن صلاحیتوں کا مالک ہوں،لیکن ترمذی کے پہلے ہی سبق میں مجھے محسوس ہوا کہ اور چاہے میں کچھ جانتا ہوں یا نہ جانتا ہوں لیکن حدیث سے تو میں بالکل ہی نا بلد ہوں۔سب سے پہلا تلخ تجربہ مجھے راویوں کے ناموں سے ہوا۔مولانا نے جب ایک