کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 95
روشن و منورکر دیتی ہیں۔جن کے بحرِ علم سے بے شمار تشنگانِ علم کو اپنی پیاس بجھانے اور ٹھنڈک محسوس کرنے کا موقع ملتا۔جن کے گوہر ہاے علم سے انسانیت کے علمی خزانوں میں گراں قدر اضافہ ہوتا ہے۔جن کی عظیم الشان علمی خدمات کی دنیا معترف ہوتی اورفیاضی کے ساتھ ان کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے اور جو اپنی عبقریت اور علمی عظمت کے ایسے نقوش اور نشان قائم کر جاتے ہیں،جو کبھی مٹائے مٹ نہیں سکتے۔‘‘ (المقالۃ الحسنیٰ،ص: ۳) مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی(المتوفی ۱۳۴۱ھ)علمِ حدیث میں آپ کے کامل ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’کان متضلعا من علوم الحدیث،متمیزا بمعرفۃ أنواعہ،وعللہٖ،وکان لہ کعب عال في معرفۃ أسماء الرجال وفي الجرح والتعدیل وطبقات المحدثین وتخریج الأحادیث‘‘ (نزہۃ الخواطر: ۸/۲۴۲) ’’آپ علمِ حدیث میں کامل تھے۔اس طور پر کہ آپ اس کی قسموں اور علتوں کو پہچان کر ان میں تمییز کرنے والے تھے۔اسی طرح آپ کو اس کے اسما و رجال کا پورا پورا علم تھا،اسی طرح آپ کو رجالِ حدیث،جرح و تعدیل،طبقاتِ محدثین اور تخریجِ حدیث کے بارے میں مکمل علم تھا۔‘‘ علامہ ڈاکٹر تقی الدین الہلالی المراکشی(المتوفی ۱۹۷۸ء)فرماتے ہیں : ’’میں اپنے رب کو شاہد بنا کر کہتا ہوں کہ ہمارے شیخ عبدالرحمن بن عبد الرحیم مبارک پوری رحمہ اللہ اگر تیسری صدی ہجری کی شخصیت ہوتے تو آپ کی وہ تمام حدیثیں جنھیں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے،صحیح ترین احادیث ہوتیں۔ہر وہ چیزجسے آپ روایت کرتے،حجت بنتی اور اس بات میں دو