کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 94
مولانا حبیب الرحمن قاسمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل سے بھرپور نوازا تھا۔دقتِ نظر،حدتِ ذہن،ذکاوتِ طبع اور کثرتِ مطالعہ کے اوصاف و کمالات نے آپ کو جامع شخصیت بنا دیا تھا۔خاص طور سے علمِ حدیث میں تبحر و امامت کا درجہ رکھتے تھے۔روایتِ حدیث کے ساتھ درایت کے مالک اور جملہ علومِ آلیہ و عالیہ میں یگانہ روزگار تھے۔قوتِ حافظہ بھی خدا داد تھی۔بینائی سے محروم ہو جانے کے بعد بھی درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھا کرتے تھے اور ہرقسم کے فتاویٰ لکھوایا کرتے تھے۔فقہا خاص طور سے احناف کے بارے میں نہایت شدید رویہ رکھتے تھے،مگر یہ معاملہ صرف تصانیف کی حد تک محدود تھا،جو سراسر علمی و تحقیقی تھا۔ ’’مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ براہِ راست عامل بالحدیث تھے۔صفاتِ باری تعالیٰ کے سلسلے میں’’مَا وَرَدَ بِہِ الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ’‘پر ایمان رکھتے تھے۔’’تحفۃ الأحوذي’‘میں اس قسم کے مختارات بھی ہیں۔مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کے تبحر علمی اور علمِ حدیث میں مہارت پر ان کی تصانیف شاہد ہیں۔ان کی تصنیف’’تحفۃ الأحوذي’‘کو اللہ تعالیٰ نے عالمِ اسلام اور عرب ممالک میں جو شہرت و مقبولیت دی ہے،شاید متاخرین علماے ہند میں کسی کی کتاب کو حاصل نہیں ہوئی۔اسی طرح’’أبکار المنن’‘اور’’تحقیق الکلام’‘آپ کے تبحر علمی کے شاہکار ہیں۔‘‘(تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۱۴۵،۱۴۶) شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ(المتوفی ۲۰۰۸ء)فرماتے ہیں : ’’امام العصر حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ۔قدس اللّٰہ روحہ۔ان نادرہ روزگار ہستیوں میں سے تھے،جو صدیوں میں کبھی کبھی صفحہ دہر پر جلوہ گر ہوتی ہیں۔اپنی آب و تاب اور چمک و دمک سے دنیاکو منور کر دیتی ہیں۔آسمانِ علم و فضل پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکتی اور اپنی ضیا پاشیوں سے اذہان کی ایک دنیا کو