کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 88
لیے دعوت دی،لیکن آپ اس وقت جامع ترمذی کی شرح لکھ رہے تھے،اس لیے معذرت کر دی اور سلطان ابن سعود کی خدمت میں تحریراً یہ جواب ارسال کیا کہ میں اس وقت جامع ترمذی کی شرح لکھنے میں مصروف ہوں،اس لیے میرا سعودی عرب آنا مشکل ہے۔ اسی طرح دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے مہتمم شیخ عطاء الرحمن مرحوم نے آپ کو شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کرنے کی گراں قدر مشاہرے پر پیشکش کی،مگر آپ نے اس پیشکش کو بھی قبول نہ کیا اور ان سے معذرت کر لی۔(دبستانِ حدیث،: ۱۸۷) جامعہ سراج العلوم بونڈیہار: ۱۹۰۷ء میں کنڈو بونڈیہار کے سربرآورہ اشخاص مولانا محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں اور ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھیں اور طلبا کو قرآن و حدیث کی تعلیم دیں۔محدث مبارک پوری اس وقت مدرسہ اللہ نگر میں تدریس فرما رہے تھے۔چنانچہ مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کنڈو بونڈیہار تشریف لے گئے اور جامعہ سراج العلوم کی بنیاد ڈالی اور طلبا کو قرآن و حدیث،فقہ اور دوسرے علومِ اسلامیہ کادرس دینے لگے۔ شیخ الحدیث مولانا ابو الحسن عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۴۱۴ھ)مدرسہ سراج العلوم کے بارے لکھتے ہیں : ’’اس جامعہ کی بنیاد ۱۹۰۷ء میں مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کے ہاتھوں پڑی،پھر سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں سے مولانا ابو الہدیٰ عبدالسلام مبارک پوری رحمہ اللہ مولف سیرۃالبخاری اور مولانا محمد سلیمان مئوی رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیتیں جامعہ کے منصبِ اشراف و تدریس پر یکے بعددیگرے فائزرہیں۔راقم سطور نے بھی اس جامعہ کے دامن میں اپنی زندگی کا ایک حصہ گزارا ہے اور اس کے چشمہ علمی سے سیرابی