کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 87
ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۶۶ء)لکھتے ہیں : ’’مدرسہ احمدیہ آرہ اپنے عہد میں اہلِ حدیث بہار کی یونیورسٹی تھی،جس میں تمام حصص ملک کے طلبا حاضر رہے۔افسوس آج یہ یونیورسٹی برباد ہو گئی ہے۔‘‘(ہندوستان میں اہلِ حدیث کی علمی خدمات،ص: ۱۴۹،۱۵۰) مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کو مدرسہ دار القرآن والحدیث کلکتہ کے ناظم صاحب نے اپنے مدرسے میں تدریس کی دعوت دی،جسے آپ نے منظور فرمایا۔ ’’تذکرہ علماے اعظم گڑھ’‘کے مصنف مولانا حبیب الرحمن قاسمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ مدرسہ احمدیہ آرہ کے صدر مدرس تھے۔شاگرد نے استاد کی طلب پر مدرسہ آرہ کا رخ کیا۔اب استاد اور شاگرد دونوں ایک ساتھ علمی خدمات انجام دینے لگے۔اس دوران مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کی علمی قابلیت کا شہرہ ہو گیا اور دور دور تک اہلِ مدارس کی نظر آپ پر پڑھنے لگی۔چنانچہ مدرسہ دار القرآن و الحدیث کلکتہ کے ناظم نے مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کو دعوت دی۔مولانا اپنے استاد(محدث غازی پوری رحمہ اللہ)کی اجازت سے کلکتہ چلے گئے۔چند سال وہاں بھی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔مولانا مبارک پوری کے تدریسی سفر کی یہ آخری منزل تھی۔اس کے بعد کسی دوسرے مدرسہ میں نہیں گئے،بلکہ تصنیف و تالیف میں مشغول ہو گئے۔‘‘(تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۱۴۵) حکومت سعودیہ اور دار الحدیث رحمانیہ دہلی کی طرف سے دعوتِ تدریس: مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ جب کلکتہ سے سلسلہ تدریس ختم کرنے کے بعد اپنے وطن مبارک پور تشریف لے گئے اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہوئے توسلطان عبدالعزیز بن عبد الرحمن والیِ سعودی عرب نے ان کو حرم پاک(مکہ مکرمہ)میں درسِ حدیث کے