کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 86
’’درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے ایک فیض یافتہ مولانا براہیم آروی تھے،جنھوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔‘‘ (تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۳۶) حیاتِ شبلی میں سید صاحب مرحوم لکھتے ہیں : ’’مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے شاگردوں میں مولوی ابراہیم صاحب آروی خاص حیثیت رکھتے تھے۔وہ نہایت خوشگوار و پردرد واعظ تھے۔وعظ کرتے تو خود روتے اور دوسروں کو رلاتے۔نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔چنانچہ نئے طرز پر انجمن طلبا اورعربی مدرسہ اور اس میں دار الاقامہ کی بنیاد کا خیال انہی کے دل میں آیا اور انہی نے ۱۸۹۰ء میں’’مدرسہ احمدیہ’‘کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا۔‘‘(حیاتِ شبلی،ص: ۳۰۸) مولانا حافظ ابراہیم آروی رحمہ اللہ نے اپنے مدرسہ میں اساطینِ علم و فن کو جمع کیا،جن میں مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۳۷ھ)بھی تھے۔انھیں صدر مدرس کے عہدے پر فائز کیا گیا۔حضرت حافظ صاحب غازی پوری نے ۲۰ سال تک(۱۸۸۶ء تا ۱۹۰۶ء)مدرسہ احمدیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ حضرت محدث غازی پوری رحمہ اللہ نے مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کو آرہ بلا کر اپنے ساتھ درس و تدریس میں شریک کار بنا لیا۔چنانچہ یہ دونوں استاد و شاگرد اس مدرسے میں کافی عرصہ تک تشنگانِ علم کو سیراب کرتے رہے۔تاآنکہ بانی مدرسہ مولانا حافظ ابراہیم آروی رحمہ اللہ نے اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی اور اس مدرسہ پر زوال آنا شروع ہو گیا۔آخر یہ مدرسہ آرہ سے در بھنگہ منتقل ہو گیا اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔(حیات شبلی،ص: ۳۰۸)