کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 82
جس سے ہندوستان اس وقت بلادِ مغرب کا ہمسر بنا ہوا تھا اور اس نے ان جلیل القدر شیوخِ حدیث کی یاد تازہ کر دی تھی،جو اپنے خداداد حافظہ،علوِ سند اور کتبِ حدیث و رجال پر عبور کامل کی بنا پر خود ایک زندہ کتب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے۔شیخ حسین بہ یک واسطہ علامہ محمد بن علی شوکانی صاحبِ’’نیل الأوطار’‘کے شاگرد تھے اور ان کی سند بہت عالی اور قلیل الوسائط سمجھی جاتی تھی۔وہ ہندوستان آئے تو علما و فضلا(جن میں بہت سے صاحبِ درس و صاحبِ تصنیف بھی تھے)نے پروانہ وار ہجوم کیا اور فنِ حدیث کی تکمیل کی اور ان سے سند لی۔‘‘(حیاتِ عبد الحی،ص: ۶۳،طبع دہلی ۱۹۷۰ء) شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ(المتوفی ۲۰۰۸ء)لکھتے ہیں : ’’(حضرت میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے سندِ فراغت کے بعد)مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری دی اور صحاح ستہ کے علاوہ موطا امام مالک،مسند دارمی،مسندشافعی،مسند امام احمد بن حنبل،الادب المفرد للبخاری،معجم صغیر طبرانی اور سنن دارقطنی کی قراء ت کر کے آپ سے روایتِ حدیث کی اجازت حاصل کی۔آپ کے اس شیخ کاعلمی دنیا میں اتنااونچا مقام ہے کہ علمِ رجال میں آپ زمانے کے ذہبیِ وقت،دقتِ نظر میں ابن دقیق العید،حفظ و اِتقان میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تھے۔علم کے ایسے سمندر تھے،جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں۔‘‘(المقالۃ الحسنیٰ،ص: ۵) مولانا حبیب الرحمن قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’شیخ حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ سے صحاح ستہ،موطا امام مالک،مسند دارمی،مسند امام شافعی،مسند امام احمد بن حنبل،الادب المفرد،معجم طبرانی الصغیر اور سنن دارمی کے اطراف پڑھ کر ان کتابوں کی روایت کی اجازت حاصل کی۔ ۱۳۱۳ھ میں قاضی محمد بن عبد العزیز مچھلی شہری رحمہ اللہ سے حدیثِ مسلسل