کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 80
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۶۶ء)لکھتے ہیں : ’’شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے اس مسابقت الی الجہاد و فوزبہ شہادت کے بعد ہی دہلی میں الصدر الحمید مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کا فیضان جاری ہو گیا،جن سے شیخ الکل السید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ مستفیض ہو کر دہلی ہی کی مسندِ تحدیث پر متمکن ہوئے۔میاں صاحب کا یہ درس ۶۰ برس تک قائم رہا۔ابتدا میں آپ تمام علوم پڑھاتے رہے،مگر آخری زمانہ میں صرف حدیث و تفسیر کی تدریس پر کاربند رہے۔‘‘(ہندوستان میں اہلِ حدیث کی علمی خدمات،ص: ۱۹،۲۰) شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ(المتوفی ۲۰۰۸ء)حضرت میاں صاحب کے مدرسے کے بارے فرماتے ہیں : ’’پورے ہندوستا ن میں حضرت میاں صاحب کا جاری کردہ دارالعلوم علومِ اسلامیہ کا وہ عظیم الشان ادارہ تھا،جس سے علم و ارشاد اور عمل و استنادکے وہ نابغہ روزگار اٹھے کہ خیر القرون کی یاد تازہ ہو گئی۔متحدہ ہند بلکہ عرب و عجم کے بام و در’’قال اللّٰہ و قال الرسول’‘کی صداؤں سے گونج اٹھے اورافکار و قلوب نورِ توحید سے منور ہو گئے۔‘‘(المقالۃ الحسنیٰ،ص: ۵) مدرسہ چشمہ رحمت میں پانچ سال گزارنے کے بعد مولانا عبد الرحمن اپنے استاد حضرت مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ کی تحریک پر حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نزیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حدیث کی تکمیل کی۔ صاحبِ’’نزہۃ الخواطر’‘لکھتے ہیں : ’’ثم سافر إلی دہلي و أخذ الحدیث عن الشیخ السید نذیر حسین المحدث الدہلوي رحمة اللّٰه عليه ‘‘ ’’پھر سفر کر کے دہلی تشریف لے گئے اور شیخ سیدمحمد نذیر حسین محدث