کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 74
مبارک پوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’تاریخ المنوال وأہلہ’‘اور مولانا ابوالحسنات ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ہندوستان کی تعلیم گاہوں ‘‘اورمولانا قاضی اطہر مبارک پوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’العقد الثمین‘‘(عربی)کے مقدمہ میں مبارک پو ر کی تاریخ بیان کی ہے۔ مبارک پور شہر میں تمام مسالک(اہلِ حدیث،دیوبندی،بریلوی اور اہلِ تشیع)کے لوگ موجود تھے،جن کا آپس میں فروعی اختلاف تھا۔ محترم ڈاکٹر عین الحق قاسمی لکھتے ہیں : ’’مولانا محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے دور میں یہاں تشیع اور اہلِ بدعت کا زور تھا۔تعزیہ،جلوس،ماتم اور درگاہ وغیرہ کا زور اب سے کہیں زیادہ تھا۔مولانا محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے والد کے زمانے میں تحریک اہلِ حدیث نے یہاں قدم رکھا تو سنیوں نے بائیکاٹ کیا،بلکہ ایک شیعہ نے ساتھ دیا،پھر دیوبندیوں کی تحریک شروع ہوئی اور طویل عرصہ تک مبارک پور دیوبندی اور بریلوی جنگ کا اکھاڑہ بنا رہا۔زبان وسنان دونوں طرح یہ جنگ چلتی رہی اور مولانا شکر اللہ صاحب کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ مطلع صاف ہوا۔اہلِ حدیث دیوبندیوں کے ہمنوا رہے۔شیعوں سے اندیشہ نہ تھا۔بریلویوں سے خطرہ تھا۔مگر دیوبندی،بریلوی جنگ میں مولانا محدث مبارک پوری کنارہ کشی کے پالیسی پر عمل پیرا رہے۔تاہم بہت کچھ مصائب سے دو چار ہونا پڑا۔اس کشاکش کے ماحول میں بھی وہ اپنی رفعت اوراخلاقی قوت کی وجہ سے تمام فرقوں میں محترم رہے۔شیعہ حضرات اپنے مسلک کے متعلق آپ کے بیان کردہ مسئلہ کو اپنے علما کے بتائے ہوئے مسئلہ کے مقابلہ میں زیادہ صحیح سمجھتے تھے۔آپ کے علم و عمل اور اخلاق نے لوگوں کو حدیث کا احترام کرنا سکھایا۔‘‘ (مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری،حیات و خدمات،ص: ۳۸،۳۹)