کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 70
وہی تھے۔(یہ مدرسہ آج بھی اسی حالت میں چل رہا ہے)یہ مدرسہ اہلِ حدیث مکتبِ خیال کا ترجمان ہے۔ تیرھویں صدی ہجری میں کئی علمی سلسلے اپنے فیوض کی بدولت خوب چلے اور پورے ملک میں ان کو مقبول تام حاصل ہوا۔مبارک پور میں بھی ان کے فیوض آئے اور یہاں کے علما نے ان سے کسبِ فیض کیا۔مولانا عبد اللہ جھاؤ میاں رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۰۰ھ)مبلغ مسلکِ اہلِ حدیث تلمیذ مولانا شاہ محمداسحاق دہلوی رحمہ اللہ نے یہاں اپنا سلسلہ جاری رکھا۔ برصغیر(پاک و ہند)میں مسلکِ اہلِ حدیث کے ترجمان مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۲۰ھ)تھے،جو محدث محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے تلمیذ تھے۔مبارک پور میں اس حلقے(اہلِ حدیث)کے متعدد علما پیدا ہوئے۔مولانا عبدالرحمن صاحب محدث،مولانا عبدالسلام مبارک پوری،مولانا عبد الحق،مولانا محمد احمد لہراوی نے براہِ راست مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی رحمہ اللہ سے پڑھا اور یہ سب کے سب مسلکِ اہلِ حدیث کے جید علما اور مصنفین میں شمار ہوئے۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے’’تراجم علماے حدیث ہند’‘کے مقدمے میں حضرت میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس درسگاہ کے ایک نامور اور تربیت یافتہ ہمارے ضلع اعظم گڑھ میں مولانا عبد الرحمن صاحب مبارک پوری تھے،جنھوں نے تدریس و تحدیث کے ساتھ جامع ترمذی کی شرح’’تحفۃ الأحوذي’‘لکھی۔’‘ (مقدمہ تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۳۷) ان حضرات کے بعد اہلِ حدیث مسلک کے علما نے اس حلقہ کے اساتذہ و شیوخ سے استفادہ کیا۔ مبارک پور میں مولانا سخاوت علی جون پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۶۴ھ)اور مولانا