کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 60
الدہلوي،المتفق علیٰ جلالتہ ونبالتہ في العلم والحدیث‘‘ ’’محترم امام عالم کبیر حضرت علامہ نذیر حسین بن جوادعلی بن عظمت اللہ بن الہ بخش حسینی بہاری دہلوی،آپ کی بزرگی اور علم اور فن حدیث میں مہارت سب کا اتفاق ہے۔‘‘(نزہۃ الخواطر: ۸/۴۹۷) مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ،حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔آپ ۱۳ سال تک حضرت شاہ محمد اسحاق کے حلقہ درس میں شامل رہے اور ان سے کتبِ تفسیر،حدیث اور فقہ پڑھیں۔ ۱۲۵۸ھ میں حضرت مولانا شاہ محمداسحاق نے اپنے برادر اصغر مولانا شاہ محمد یعقوب کے ہمراہ مکہ معظمہ ہجرت کی تو میاں صاحب سید نذیر حسین دہلوی ان کی مسند کے جانشین ہوئے اور دہلی کی مسجد اورنگ آبادی میں مکمل ۶۲ سال تک کتاب و سنت کی تدریس و تعلیم میں یکسوئی کے ساتھ مشغول رہے۔اس عرصے میں ہزاروں طلبا ان سے مستفید ہوئے،جن کا شمار ممکن نہیں۔ میاں صاحب کایہ درس ۶۲ سال تک قائم رہا۔ابتدا میں آپ تمام علوم پڑھاتے تھے،لیکن آخری زمانے میں صرف تفسیر و حدیث کی تدریس پر کاربند رہے۔ میاں صاحب کے تلامذہ ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئے اور خدمتِ اسلام کا ایک ایک میدان سنبھال لیا اور پوری زندگی کتاب و سنت کی اشاعت میں گزار دی۔حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دینِ اسلام کی نشر و اشاعت اور کتاب و سنت کی ترقی و ترویج اور شرک و بدعت کی تردید و توبیخ کے سلسلے میں جو ذرائع استعمال کیے،وہ حسبِ ذیل ہیں : 1۔درس و تدریس۔ 2۔دعوت و تبلیغ۔