کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 58
’’میری تقریر اسماعیل(شہید)نے،تحریر رشید الدین نے اور تقویٰ اسحاق نے لے لیا۔’‘ (تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۱۱۶،تواریخ عجیبہ محمد جعفر تھانیسری،ص: ۱۴۲) دہلی میں آپ نے ۶۰ سال تک حدیث کا درس دیا۔ان کے درس کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۵۳ء)فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے آپ کے درس میں بڑی برکت فرمائی۔تمام بڑے بڑے علما ان کے شاگرد تھے۔چند رسالے بھی ان کی تصنیف ہیں۔غدر کے بعد مکہ معظمہ ہجرت کر کے چلے گئے اور وہاں بھی یہ سلسلہ فیض جاری رہا۔آخر وہیں ۱۲۶۲ھ میں وفات پائی۔ان کے تلامذہ میں مولانا احمد علی محدث سہارن پوری،نواب صدر الدین خاں دہلوی،نواب قطب الدین خاں دہلوی جنھوں نے کتبِ حدیث کا اردو میں ترجمہ کیا ہے،مولانا سید نذیر حسین صاحب(بہاری)دہلوی،مولانا عالم علی مراد آبادی،شیخ محمد صاحب تھانوی،مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی اور مولانا قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی ہیں۔‘‘(مقالاتِ سلیمان: ۲/۵۲،۵۳) چالیس سال تک درس و تدریس اور فتاویٰ نگاری میں مصروف رہنے کے بعد’’الصدر الحمید’‘کے لقب سے مشہور ہوئے۔ خاندانِ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اور آپ کے صاحبزادگان عالی مقام مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی،مولانا شاہ رفیع الدین محدث دہلوی،مولانا شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور مولانا شاہ عبد الغنی دہلوی رحمہم اللہ اور پوتے مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے دونوں نواسوں مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی اور مولانا شاہ محمد یعقوب رحمہم اللہ نے دینِ اسلام کی نشر و اشاعت،کتاب و سنت کی