کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 52
واپسی سے پہلے اپنے استاد شیخ ابو طاہر الکردی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے جو کچھ پڑھا تھا،وہ سب بھلا دیا ہے سوائے علمِ حدیث کے۔شاہ صاحب کی پوری زندگی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ حدیث نبوی کی تشریح و تفہیم،تدریس و تعلیم اور اشاعت و تفہیم میں مصروف رہے۔ جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے ہندوستان واپس آنے کے بعد شاہ صاحب نے اپنے آبائی مدرسہ رحیمیہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور مختصر مدت میں یہ مدرسہ حدیث کی سب سے بڑی درسگاہ بن گیا،جہاں ہندوستان کے گوشے گوشے سے تشنگانِ علمِ حدیث نے پروانہ وار ہجوم کیا۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ شاہ صاحب نے تصنیف و تالیف کے ذریعے سے بھی خدمتِ حدیث میں اہم کردار ادا کیا۔آپ نے موطا امام مالک کی دو شرحیں بزبان عربی و فارسی’’المسوٰی’‘اور’’المصفٰی’‘لکھیں۔اس کے علاوہ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کی شرح(عربی)بنام’’تراجم البخاري’‘تالیف کی۔ مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی(المتوفی ۱۹۶۶ھ)لکھتے ہیں : ’’جناب حجۃ اللہ شاہ ولی اللہ نے حدیث کی اول کتاب موطا امام مالک رحمہ اللہ کی دو شرحیں(عربی و فارسی میں)بنام’’المسوٰی’‘اور’’المصفٰی’‘لکھیں اور تقلیدی بندھنوں سے بالکل بے نیاز رہ کر اس مجتہدانہ شان کے ساتھ کہ بارھویں صدی ہجری کے مجدد کا فرض تھا۔ان دونوں کا(گویا)ضمیمہ’’الإنصاف في بیان سبب الاختلاف’‘کے نام سے لکھا اور تکملہ’’عقد الجید في أحکام الإجتہاد