کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 50
’’ابن تیمیہ اور ابن رشد رحمہم اللہ کے بعد،بلکہ خود انہی کے زمانہ میں مسلمانوں میں جو علمی تنزل شروع ہوا،اس لحاظ سے یہ امید نہیں رہی تھی کہ پھر کوئی صاحبِ دل و دماغ پیدا ہو گا۔لیکن قدرت کو اپنی نیرگوں کا تماشا دکھانا تھا کہ آخر زمانہ میں جب اسلام کا نفس باز پسین تھا،شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا،جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی،رازی اور ابن رشد کے کارنامے بھی ماند پڑ گئے۔‘‘(تاریخ علمِ کلام،ص: ۸۷) شیخ محمد اکرام مرحوم لکھتے ہیں : ’’ہم شاہ صاحب کو محض کم ہمتی اور تقلید پسندی سے امام نہیں کہتے،ورنہ جہاں تک علمی تبحر،دفاعی قابلیت،مجتہدانہ نظر،سلیم الخیالی اور اشاعتِ کتاب و سنت کے سلسلے میں عظیم الشان قومی اور مذہبی خدمات کا تعلق ہے،دنیاے اسلام میں بہت ہی کم بزرگ ہوں گے،جن سے آپ پیچھے رہیں ہیں۔آپ نے بیسیوں کتابیں لکھیں : تفسیر،حدیث،تصوف،فقہ اور علام الکلام۔غرض کہ علومِ اسلامی کی کوئی شاخ نہیں جسے آپ نے سیراب نہ کیا ہو اور اللہ کا فضل ایسا شاملِ حال تھا جس چیز کو ہاتھ لگاتے کندن ہوجاتی۔‘‘(رود کوثر،ص: ۵۵۱) محترمہ ڈاکٹر ثریا صاحبہ لکھتی ہیں : ’’حضرت شاہ ولی اللہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی،فقیہ بھی تھے اور مجتہد بھی،متکلم بھی تھے اور صوفی بھی۔انھوں نے اصول و عقائد،علم منطق،علم معانی،علم ہندسہ و حساب اور علم حدیث کا بنظر غائر مطالعہ کیا تھا۔درس و تدریس اور اپنی جلیل القدر تصانیف سے انھوں نے ہندوستان میں علوم و معارف کے دریا بہا دیے۔ان کی علمی فیاضیوں اور عظمت و جلالت کے باعث دور دراز کے ممالک سے شائقینِ علوم و معارف ان کے حلقہ درس میں شامل ہو کر علمی برکتیں سمیٹنے کے لیے آتے۔یہاں تک کہ علومِ کتاب و سنت کے اس دریا سے بے شمار نہریں کٹ کٹ کر ہندوستان کے گوشے گوشے کو