کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 39
پاس آ کر سیکھ لے یا نقل کر لے،وہ کر سکتا تھا،لیکن اجتماعی طور پر باقاعدہ حکومت کی نگرانی میں جمع کرنے اور اس کے مختلف مجموعوں کو یکجا کر کے اس کی عام اشاعت کا انتظام اس وقت تک نہ تھا۔ایک صحابی کے شاگرد اپنے استاد کی ہزاروں حدیثوں سے واقف ہوں،لیکن ان کو دوسروں کی روایات کا علم زیادہ نہ تھا اور جوکچھ تھا بھی اس کو وہ لوگ اپنے طور پر لکھ کر محفوظ کر لیتے تھے۔ ’’حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں امام محمد بن مسلم بن شہاب زہری اور مدینے کے گورنر ابو بکر محمد بن حزم وغیرہ کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست دین حاصل کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آہستہ آہستہ اٹھتے جا رہے ہیں۔مجھے اندیشہ ہے کہ علمِ حدیث کہیں ضائع نہ ہو جائے،اس لیے اسے تم جمع کرو۔اس وقت ان حضرات نے اس منتشر ذخیرے کو یکجا کیا اور جو حدیثیں لوگوں کے پاس الگ الگ تھیں،سب جمع کر کے اور حکومت کی طرف سے باقاعدہ انتظام کر کے اس کے مجموعے تیار کرائے گئے اور اس کی نقلیں مملکت کے گوشے گوشے میں پھیلا دی گئیں۔اس طرح حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا کام منتشر ذخیرے کو جمع کرنا اور اسے منظم طریقے پر شائع و عام کرنا ہوا۔‘‘(ترغیب و ترہیب مترجم مطبوعہ دہلی: ۱/۱۷۷) مولانا عبد السلام ندوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۵۶ھ)لکھتے ہیں : ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں فنِ حدیث مدون ہو چکا تھا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے انہی اجزائے پریشاں کو ایک مجموعے کی صورت میں جمع کیا۔‘‘(اسوۂ صحابہ: ۲/۳۱۰)