کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 37
علومِ شرعیہ کے مٹ جانے کا بھی اندیشہ ہے۔اس لیے انھوں نے قاضی ابو بکر بن حزم خزرجی انصاری(المتوفی ۱۲۰ھ)جو بڑے پایہ کے عالم اور مدینے کے گورنر تھے،ان کو حدیث کی تدوین کی طرف توجہ دلائی اور لکھا: ’’انظر ما کان من حدیث رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فاکتبہ فإني خفت دروس العلم وذھاب العلماء‘‘ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیثیں آپ کو ملیں،ان کو تحریری شکل میں لے آؤ،کیوں کہ مجھے علم کے مٹنے اور علما کے فنا ہونے کا خوف معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري،کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(المتوفی۸۵۲ھ)فرماتے ہیں : ’’حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا یہ حکم صرف گورنر مدینہ کے ساتھ مخصوس نہ تھا،بلکہ انھوں نے تمام صوبوں کے گورنروں کے نام اسی قسم کا فرمان بھیجا تھا۔‘‘(بحوالہ سیرت عمر بن عبد العزیز از مولانا عبد السلام ندوی،ص: ۱۴۱) چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کی تعمیل کی گئی اور احادیث کے مجموعے تیار کیے گئے۔ حافظ ابن عبد البر قرطبی رحمہ اللہ(المتوفی ۴۶۳ھ)نے اپنی کتاب’’جامع بیان العلم و فضلہ’‘میں سعد بن ابراہیم کی یہ روایت نقل کی ہے: ’’أمرنا عمر بن عبد العزیز بجمع السنن فکتبناھا دفترا دفترا فبعث إلی کل أرض لہ سلطان دفترا‘‘ ’’ہم کو عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے جمع حدیث کا حکم دیا اور ہم نے دفتر کی دفتر حدیثیں لکھیں اور انھوں نے ایک ایک مجموعہ ہر جگہ جہاں جہاں ان کی حکومت تھی بھیجا۔‘‘(جامع البیان العلم و فضلہ،ص: ۳۸)