کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 32
چونکہ زیادہ تر ایمان و عقائد اور اصولِ دین بیان کرتا ہے،اس لیے اس کی حیثیت ایک بنیادی قانون اور اساسی دستور کی ہے۔اب اسے تفصیلی شکل دینا اور اس کے دفعات کی وضاحت کرنا،یہ در اصل حدیث کا کام ہے اور یہ کام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے خود اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ} [النحل: ۴۴] یعنی ہم نے آپ پر قرآن مجید اتارا ہے،تاکہ جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ہیں،آپ انھیں وہ مضامین خوب سمجھا دیں۔ جو متن خود اپنے بیان کے مطابق محتاجِ شرح ہو،اگر اس کی شرح ضائع ہو جائے تو بلا شبہہ وہ متن بھی باوجود اس کے کہ اس کا ایک ایک حرف محفوظ ہے،ضائع ہونے کے برابر ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماے اسلام نے کبھی قرآن مجید کو حدیث سے آزاد ہو کر نہیں دیکھا۔امام اوازعی رحمہ اللہ نے امام مکحول رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: ’’الکتاب أحوج إلی السنۃ من السنۃ إلی الکتاب‘‘ ’’کتاب اللہ سنت کی اس سے کہیں زیادہ محتاج ہے جتنی سنت کتاب اللہ کی محتاج ہے۔‘‘(جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر: ۲/۱۹) امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فکان السنۃ بمنزلۃ التفسیر والشرح لمعاني أحکام الکتاب‘‘ ’’سنت کتاب اللہ کے احکام کے لیے تفسیر اور شرح کے برابر ہے۔‘‘(الموافقات: ۴/۱۰،بحوالہ ترغیب و ترہیب مترجم: ۱/۹۶) شارح مشکات ملا علی قاری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۰۱۴ھ)فرماتے ہیں : ’’سعادۃ الدارین منوطۃ بمتابعۃ کتاب اللّٰہ،و متابعتہ موقوفۃ علیٰ معرفۃ سنۃ رسولہ علیہ السلام ومتابعتہ فھما متلازمان شرعا