کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 282
مبارکپوری(استاذ جامعہ سلفیہ بنارس)نے مجھے یہ تفصیلات فراہم کیں : ’’مولانا مبارکپوری کو کسی علم دوست تاجر کے ذریعے سے وہ فہرست دستیاب ہوئی تھی،جس کی وضاحت مولانا عبد السلام رحمانی مبارکپوری نے سیرۃ البخاری کے حاشیے میں کی ہے۔اس کی ایک کاپی شاید ہمارے یہاں گھر پر ہی موجود ہے،اس میں مکتبہ محمودیہ مدینہ منورہ کے حوالے سے بھی بعض کتابوں کا تذکرہ ہے،اس پر سب سے پہلے ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب نے’’غیر دقیق’‘ہونے کا الزام لگایا تھا،جس کی ڈاکٹر تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ نے’’صوت الأمۃ’‘میں سخت لہجے میں تردید کی تھی۔جنگِ عظیم میں یورپ خصوصاً جرمنی کے مکتبات تباہی و بربادی کے شکار ہوگئے تھے،لہٰذا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مکتبہ محفوظ رہ گیا تھا یا منتقل نہیں ہوا یا دست برد کا شکار نہیں ہوا۔مدینے کے شیخ حماد انصاری رحمہ اللہ نے اپنے تئیں مشرقی جرمنی(سابقا)کے ایک شہر لیبزگ کے ایک مکتبے کی فہرست حاصل کی تھی یا بعض کتابوں کا پتا چلایا تھا تو بعض ایسی کتابوں کا پتا چلا تھا،جن کا تذکرہ مذکورہ فہرست میں موجود ہے۔شیخ رحمہ اللہ بعض کتابوں کو منگوانے کی تگ و دو میں بھی تھے۔اب حاصل کر سکے تھے یا نہیں ؟ اس کا علم نہیں ہے،بہرحال مولانا مبارکپوری کو بدنام کرنے کی ایک جانب سے کوشش ہو رہی ہے۔بقیہ حالات حسبِ دستور ہیں۔‘‘ والسلام محتاجِ دعا: رضاء اﷲ مبارکپوری (راقم الحروف کے نام یہ مکتوبہ مورخہ ۱۲۔۸۔۹۸ء کو جامعہ سلفیہ بنارس سے لکھا گیا ہے)