کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 281
احتیاطی سے بسا اوقات بہت سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں اور امت تفریق و انتشار سے دوچار ہوتی ہے۔اللّٰهم احفظنا منہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس سلسلے کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم مولانا مبارکپوری کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے پوری کشادہ دلی کے ساتھ حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں،تاکہ {اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ} کا حق ادا ہوجائے۔ انھیں جذبات کے ساتھ جب میں نے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی تو سب سے پہلے میری نظر حضرت مولانا قاضی اطہر صاحب مبارکپوری۔رحمہ اللّٰه رحمۃ واسعۃ۔کی اس تحریر پر پڑی: ’’مولانا(مبارکپوری)نے مقدمہ(تحفۃ الاحوذی)میں کتبِ احادیث کے مخطوطات اور نوادر کے بارے میں نشان دہی کی ہے کہ فلاں کتاب یورپ اور ایشیا کے فلاں فلاں کتب خانے میں موجود ہے۔یہ کام بھی پچاسوں سال پہلے دشوار تھا اور آج جب کہ دنیا کے ہر مشہور کتب خانے کی مفصل فہرست اور کٹیلاگ مرتب ہو کر چھپ چکی ہیں،گھر بیٹھے دنیا بھر کے کتب خانوں کی سیر کی جا سکتی ہے،چوں کہ ادھر پچھلے سالوں میں یورپ اور ایشیا میں متعدد جنگیں ہوچکی ہیں اور انقلابات آچکے ہیں،اس لیے بہت سے ممالک کے کتب خانوں پر زوال آیا اور ان کے نظام میں ابتری پیدا ہوئی،ان کی کتابیں اِدھر سے اُدھر ہوئیں اور بہت سی کتابیں غائب ہوگئیں،اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس مقدمے کی نشان دہی بعض کتابوں کے بارے میں بے محل معلوم ہوتی ہو۔‘‘[1] بعد ازاں مولانا مبارکپوری کے اہلِ خاندان کی طرف رجوع کیا تو ڈاکٹر رضاء اﷲ
[1] تذکرہ علمائے مبارکپور(ص: ۱۵۳۔۱۵۴ دائرہ ملیہ مبارکپور،اعظم گڑھ ۱۹۷۴ء)