کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 279
کے بارے میں معلومات مہیا کرنے میں ہماری مدد کریں،لیکن وہ شریف آدمی اپنے مطلب(تقسیمِ ہند سے قبل وہابی تحریک کا جائزہ)کی معلومات لے کر چلا گیا اور اس نے ہماری مطلوبہ معلومات تاحال نہیں بھیجی ہیں۔ مذکورہ بالا سطور سے محدث مبارکپوری کی علمی دیانت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ انھوں نے یہ معلومات مہیا کرتے وقت اس فہرست کو بنیاد بنایا تھا نہ کہ اپنی علمی دھونس جمانے کے لیے ہندوستان میں بیٹھ کر جرمنی میں کتب کی موجودگی کی بے بنیاد معلومات نقل کرتے چلے گئے۔ انسانی فطرت ہے کہ اپنی لا علمی اور کوتاہی کا اعتراف کرنے کے بجائے حقائق ہی کا انکار کر دیا جائے۔اکثر لوگوں کا یہی رویہ ہے کہ جب انھیں ایک چیز کی خبر نہیں تو گویا دنیا میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔محدث مبارکپوری دنیا بھر میں مکتبہ جات کی فہارس پر اعتماد کے معروف طریق پر عمل کرتے ہوئے انھیں حاصل ہونے والی فہرست کی بنیاد پر معلومات مہیا کرتے ہیں اور ڈاکٹر مسعود الاعظمی سے لے کر ڈاکٹر مصطفی اعظمی اور حبیب الرحمن اعظمی سے لے کر ڈاکٹر حمید اﷲ(محدث مبارکپوری کے ناقدین کے بقول)استہزا بھرے انداز میں انکار کر کے اپنی علمی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں،حالاں کہ اگر علمی دیانتداری اور رواداری کا پاس ہوتا تو یوں بھی کہا جا سکتا تھا کہ اگر ایک محدث یہ بات نقل کر رہے ہیں تو ان کے پاس کوئی ماخذ ہوگا،جس تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی۔ یوں احترام بھی باقی رہتا اور انکار سے پہلے تحقیق کی جاتی۔محدث مبارکپوری کے متعلقین سے رابطہ کر کے اس ماخذ کی بابت دریافت کیا جاتا اور پھر اس فہرست کی اصلیت پرکھنے کے لیے اپنے وسائل کو بروے کار لاتے۔اگر واقعتا جرمنی میں ایسے کسی مکتبے کا سراغ نہ ملتا،جس میں ایسی نادر و نایاب کتب تھیں یا آج بھی ہیں تو پھر ڈنکے کی چوٹ محدث مبارکپوری کی معلومات کا رد کیا جاتا۔لیکن یہاں تحقیق کے