کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 277
مذکورہ بالا حافظ ابن حجر کی تحریر کردہ کتب ہونے کے علاوہ اس قلمی فہرست کی بہت سی دیگر نادر کتب کا بھی فتح الباري میں بار بار حوالہ پایا جاتا ہے۔اس تفصیل سے آٹھویں،نویں صدی تک ان کتابوں کے کرۂ ارضی پر پائے جانے کی خبر ہو رہی ہے۔نیز حافظ ابن حجر کا ان سے یقینی تعلق ثابت ہو رہا ہے،اس کے بعد اگر تاریخی طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ حافظ ابن حجر کا عظیم کتب خانہ کس طرح جرمنی پہنچا تھا تو محدث مبارکپوری کی معلومات کی حقانیت کھل کر سامنے آسکتی ہے۔تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ عمدہ موضوع تحقیق ہے۔ ۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم کے نتیجے میں جرمنی جس تباہی سے دوچار ہوا،وہ کس سے مخفی ہے؟ اس تباہی کے دوران میں مکتبہ دار العلوم کے برباد ہونے کا اغلب امکان تھا،جیسا کہ قاضی اطہر مبارکپوری صاحب نے اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’مولانا(مبارکپوری)نے مقدمہ(تحفۃ الاحوذی)میں کتبِ حدیث کے مخطوطات اور نوادر کے بارے میں نشاندہی کی ہے کہ فلاں کتاب یورپ اور ایشیا کے فلاں فلاں کتب خانے میں موجود ہے۔۔۔چوں کہ ادھر پچھلے برسوں میں یورپ اور ایشیا میں متعدد جنگیں ہوچکی ہیں اور انقلابات آچکے ہیں،اس لیے بہت سے ممالک کے کتب خانوں پر زوال آیا اور ان کے نظام میں ابتری پیدا ہوئی۔ان کی کتابیں اِدھر سے اُدھر ہوئیں اور بہت سی غائب بھی ہوگئیں،اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس مقدمے کی نشاندہی بعض کتابوں کے بارے میں بے محل معلوم ہوتی ہو۔‘‘[1] لیکن یہ ابتدائی اطلاع انتہائی مسرت بخش ہے کہ یہ مکتبہ تاحال باقی ہے۔عظیم علم دوست و کتاب دوست شیخ حماد الانصاری کے مطابق ان کے دوست خالد لبنانی بہ
[1] قاضی اطہر مبارکپوری: تذکرہ علماے مبارکپور(ص: ۱۵۳۔۱۵۴ دائرہ ملیہ مبارک پور،اعظم گڑھ ۱۹۷۴ء)بحوالہ’’محدث’‘بنارس،نومبر ۱۹۹۸ء(ص: ۲۵)