کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 271
جانے والا رویہ ہی قابلِ ذکر ہے،جو محدث مبارکپوری کی شان میں تنقیص و تنکیر کے بجائے تکریم و توثیق کا آئینہ دار ہے۔ لہٰذا اب حبیب الرحمن اعظمی صاحب کے خط کے ذریعے سے محدث مبارکپوری کی شان میں ڈاکٹر صاحب کے نام پر گستاخی یا مقدمے میں درج معلومات پر گرفت علمی دیانت داری کے منافی اور تقلید ناسدید کے ہاتھوں مجروح دل و دماغ کی غمازی کا بین ثبوت ہے۔یہ ثبوت مہیا کرنے کے بجائے امید واثق ہے کہ ڈاکٹر مسعود الاعظمی صاحب بھی ڈاکٹر حمید اﷲ کے آخری عمر کے رویے کو تسلیم کرتے ہوئے اس قسم کے استدراکات کے ذریعے سے علماے حدیث کی شان مجروح کرنے اور باہمی نفرت و عداوت کو بھڑکانے کے بجائے ڈاکٹر صاحب کی طرح محدث مبارکپوری کی خدماتِ حدیث کا کھلے دل سے تحریری اعتراف کریں گے۔ اس کے بعد ہم دوسرے معاملے کا جائزہ لیتے ہیں : ۲۔ کیا محدث مبارکپوری،مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں کتبِ حدیث کے بارے میں بے بنیاد معلومات کے دریا بہانے والے ہیں ؟ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کا تعلق علماے حدیث سے تھا۔وہ بر صغیر کی تحریکِ عمل بالحدیث کے صفِ اول کے قائد ہیں۔مسلکِ محدثین میں کسی بھی بے بنیاد بات کی قطعی طور پر گنجایش نہیں ہے۔محدث مبارکپوری جیسی عظیم ہستی سے کیا یہ اصولِ محدثین مخفی تھا کہ بے بنیاد باتیں وضعی قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہیں،اگرچہ ان کے ساتھ سلسلۃ الذہب ہی کیوں نہ نتھی ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ محدث مبارکپوری نے مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں کتبِ حدیث کے بارے میں قطعاً کوئی بے بنیاد بات درج نہیں فرمائی ہے۔۱۳۱۵ھ میں نور محمد نامی آپ کے ایک مہربان تاجر ترکی،جرمنی،مصر،شام اور سعودیہ وغیرہ کی سیاحت کر کے واپس لوٹے تو فہرس کتب خانہ قلمی دار العلوم جرمن،فہرس کتبِ قلمیہ نایاب زمانہ نور