کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 270
اس خط میں جناب ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب نے محدث مبارکپوری کے بارے میں بالکل واضح طور پر اپنے طبعی رجحان کی وضاحت فرما دی ہے کہ مجھے نہیں یاد میں نے عمر بھر ان کے بارے میں ایسی کوئی چیز تحریر کی ہو۔اس کے برعکس محدث مبارکپوری کی خدماتِ حدیث کو سراہا،ان کے بارے میں اپنے کلی احترام کا ذکر کیا اور محدث مبارکپوری کے بارے میں اپنی طرف منسوب آرا سے قطعی طور پر انکار کر دیا،بلکہ اس قسم کے رویے سے اﷲ کی پناہ کے طلب گار ہیں۔ مذکورہ بالا خطوط کے مطابق جناب ڈاکٹر حمید اﷲ کا محدث مبارکپوری کے بارے میں یہ رویہ ۱۴۱۲ھ / ۱۹۹۲ء یعنی اپنی طویل عمر کے آخری دور کا احترام بھرا رویہ ہے۔خدانخواستہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی عمر کے کسی دور میں کوئی ایسی بات لکھی بھی تھی،تب بھی وہ اس معذرت نامے کے بعد اس سے بَری ہیں۔لیکن خط سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب محدث مبارکپوری کے بارے میں عمر بھر کبھی ایسے بے ہودہ الفاظ اپنی نوکِ قلم پر نہیں لائے۔ان کی تحریریں مجموعی طور پر دیگر اربابِ علم و فضل کے بارے میں اسی رجحان کی عکاسی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے انکار کے بعد غالباً یہ حاشیہ آرائی محدث مبارکپوری سے مخاصمت رکھنے والے مخصوص گروہ کے کسی ایسے فرد کی کارستانی ہے،جو ڈاکٹر صاحب کے انتہائی قریبی حلقے سے تعلق رکھتا ہے اور ڈاکٹر صاحب کے نام پر یہ کھیل کھیلتا رہا ہے۔بہر حال ڈاکٹر صاحب اپنی براء ت کا علانیہ اظہار کر چکے ہیں۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے ذکر کردہ خط کی تاریخِ تحریر ۱۳/ صفر ۱۳۸۱ھ ہے،جب کہ میرے پاس ڈاکٹر صاحب کے ۱۴۱۲ھ کے خطوط ہیں۔اہلِ علم کی دنیا میں مستند اصول’’إنما الأعمال بالخواتیم’‘کے تحت اعظمی صاحب والے خط میں ڈاکٹر صاحب سے منسوب محدث مبارکپوری کے بارے میں رویہ اب قطعاً لائقِ ذکر و التفات نہیں ہے،بلکہ اس سے تقریباً ۳۰ سال بعد ۱۴۱۲ھ میں تحریر کردہ خطوط میں پایا