کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 262
تاہم ۱۳۲۰ء۔۱۳۲۳ھ کے درمیان مولانا شمس الحق ڈیانوی کی دعوت پر ان کے ہاں چلے گئے اور عون المعبود کی تصنیف میں ان کی مدد کرتے رہے۔آپ کی یادگار تصانیف میں سے تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی،مقدمہ تحفۃ الاحوذی اور ابکار المنن فی تنقید آثار السنن بہت زیادہ مشہور ہیں۔ان کے علاوہ فاتحہ خلف الامام،الجمعۃ فی القریٰ جیسے مختلف فیہ مسائل پر بھی آپ نے رسائل تحریر فرمائے۔ محدث مبارکپوری برصغیر میں جاری تحریک عمل بالحدیث کے زبردست داعی تھے،کیوں کہ یہ تحریک اسلام کی فکری و عملی طور پر اصلی تعبیر کی نمایندہ ہے۔اس تحریک میں نہ عقائد و نظریات میں کوئی فکری آلایش اور عقلی کج روی ہے اور نہ غیر نبی یعنی امتی کی اتباع و اقتدا کا الہامی تائید سے محروم طرزِ عمل۔ محدث مبارکپوری نے اس تحریک کی ترویج و استحکام کی خاطر مذکورہ بالا مدارس دینیہ کے قیام و تدریس کے ذریعے حدیث نبوی کی تعلیم کو عام کیا،تاکہ اس تعلیم سے عمل بالحدیث کی راہیں آسان ہوں۔تدریسی خدمات کے علاوہ حدیثِ نبوی کی تفہیم کی خاطر جامع ترمذی کی’’تحفۃ الأحوذي’‘کے نام سے مشہور عالم یادگار تصنیف کے ذریعے شرح کا حق ادا کیا۔برصغیر کے عظیم مورخ قاضی اطہر مبارکپوری کے بقول تحفۃ الاحوذی نے امت کے کندھوں سے ترمذی کا قرض اتار دیا ہے۔ علوم الحدیث اور امام ترمذی کے بارے انتہائی معلوماتی’’مقدمۃ تحفۃ الأحوذي’‘لکھا،جو ایک جلد میں مطبوع ہے۔مقدمے کے پہلے حصے میں علوم الحدیث کے بارے میں متعلقہ کتب کی طرف بھی راہنمائی فرمائی ہے اور انھیں حاصل ہونے والی قلمی فہارس کی بنیاد پر بعض کتب کی جرمنی میں موجودگی کی خبر دی ہے۔دوسرے حصے میں امام ترمذی اور ان کے محدثانہ مقام و مرتبے کے علاوہ ترمذی شریف کے بارے تفصیلی معلومات مہیا کی ہیں۔ محدث مبارکپوری نے امام ترمذی کی کتاب’’العلل’‘کی شرح بنام’’شفاء الغلل‘‘