کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 255
کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارکفوري۔عفا اللّٰہ تعالیٰ عنہ۔ فتوٰی از رسالہ بکرا دیوی مرتبہ مولوی محمد اشرف سیکرٹری انجمن اہلِ حدیث سندو پنڈ بلوکی ضلع لاہور ۱۳۴۹ھ۔(مولانا محمدعبد الرحمن مدث مبارک پوری حیات و خدمات،ص: ۲۱۱) (مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ کے صاحبزادے)شاید اس سلسلے میں کچھ راہنمائی کر سکیں۔اسی طرح دوسرے استاد محدث مولانا نذیر حسین صاحب(میاں صاحب)کے فتاویٰ کی ترتیب بھی آپ ہی نے دی تھی اور اس میں آپ کے فتاویٰ بھی مختلف اشکال میں ملتے ہیں۔کبھی تائید کی شکل میں،کبھی مخالفت کی شکل میں اور کبھی مستقل آپ کے لکھے ہوئے فتاوے کی شکل میں،جس پر میاں صاحب کی تائید ہوتی ہے۔اندازہ یہی ہے کہ فتاویٰ نذیریہ میں ایک ثلث(کم از کم)آپ کے فتاویٰ ملتے ہیں۔ ’’میرے پاس جو مجموعہ ہے بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ تایا محترم حکیم عبد السلام صاحب رحمہ اللہ نے مختلف طریقوں سے انھیں جمع کیا ہے،کیوں کہ ان میں کچھ فتوے ایسے ہیں،جو کسی پرچے سے منقول ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کی نقول موجود تھیں۔چنانچہ ان میں بعض فتوے ایسے بھی ہیں کہ مستفتی کے سوالات موجود نہیں ہیں اور صراحت کر دی گئی ہے کہ سوالات کے کاغذات نہیں مل سکے۔اس لیے صرف جوابات پراکتفا کیا گیا ہے اور کچھ ردود(کذا)کی شکل میں ہے۔ ’’فتویٰ نویسی میں مولانا مرحوم نے اپنی محدثانہ روش کو نہیں چھوڑا ہے۔کتاب و سنت ہی کی روشنی میں ہر سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔احادیث میں تحفۃالاحوذی کا ہی اسلوب پایا ہے،یعنی روایت و درایت کا اسلوب۔ ’’یہ میری اب تک کی معلومات کا خلاصہ ہے۔مجموعے کو نقل کر لیا ہے۔اب فتاویٰ نذیریہ سے ان کے فتاویٰ کو چھانٹ رہا ہوں،کیوں کہ یہی مشورے کے بعد