کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 253
فتوٰی نویسی کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔بسا اوقات ایسا ہوتا کہ وہ کسی استفتا کاجواب لکھنا چاہتے تو اس کے متعلق اپنے پاس تشریف لانے والے علماے کرام سے مشورہ کرتے اور اس کی تمام جزئیات پر غور و فکر کے بعد اس کا جواب تحریر فرماتے۔یقینا ان کے فتاویٰ کو بہت بڑے علمی سرمائے کی حیثیت حاصل ہے اور روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کے بارے میں ان کی تحقیق ایک جلیل القدر مجتہد عالم کی تحقیق ہے۔ان کی جمع و تدوین اور اشاعت نہایت ضروری ہے۔ پتا چلا ہے کہ حضرت مرحوم کے پڑپوتے ڈاکٹر رضاء اللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ(سابق استاد جامعہ سلفیہ بنارس)نے فتاویٰ کے اس ذخیرے کی جمع و تدوین کا کام شروع کر دیا تھا،لیکن افسوس ہے ۳۰ مارچ ۲۰۰۳ کو بمبئی میں(جہاں وہ جمعیت اہلِ حدیث کی دو روزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تھے)اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے تھے۔وفات کے وقت ان کی عمر صرف ۴۹ برس تھی۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ اس کے بعد مولانا بھٹی صاحب لکھتے ہیں : ’’ڈاکٹر صاحب مرحوم ایک مکتوب میں جو انھوں نے ۳۱ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ڈاکٹر عین الحق قاسمی(مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ’’حیات و خدمات’‘کے مصنف)کے نام ارسال فرمایا،لکھتے ہیں کہ جہاں تک فتوٰی نویسی کا تعلق ہے تومحدث مبارک پوری رحمہ اللہ اس فن سے شروع ہی سے منسلک رہے۔چنانچہ اپنے استاد محترم جناب مولانا عبد اللہ صاحب غازی پوری رحمہ اللہ کے فتاویٰ کی تنسیق و ترتیب کا کام کیا تھا،جس کا ایک نسخہ ابھی تک موجود تھا،مگر کچھ معترضین کی نذر ہو گیا،اس کا کچھ پتا نہیں چل رہا ہے۔‘‘