کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 243
بھاگنے لگے تھے۔اس وقت مولانا عبدالعلیم صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ نے’’کتاب الشہادۃ’‘اور مولانا عبد الرحمن صاحب مبارک پوری نے’’خیر الماعون في منع الفرار من الطاعون’‘لکھی۔یہ کتاب اردو زبان میں ہے،اس میں احادیث اور آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روشنی میں بتایا گیا کہ طاعون زدہ علاقوں سے بھاگنا نہیں چاہیے۔‘‘(دبستانِ حدیث،ص: ۱۹۰) اس کتاب کا تعارف محقق اہلِ حدیث مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے درج ذیل الفاظ میں کرایا ہے۔مولانااثری صاحب فرماتے ہیں : ’’۱۳۲۱ھ/۱۹۰۳ء اور ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں مبارک پور میں بھی طاعون کی وبا پھیلی تو کثرتِ اموات سے مبارک پور کی رونق اجڑ گئی اور کچھ لوگ سراسیمگی کی کیفیت میں مبارک پور کو خیر باد کہنے لگے۔’’فرار من الطاعون’‘کے جواز و عدم جواز کا جھگڑا بھی چل نکلا۔اسی مسئلہ کی وضاحت کے لیے مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ نے’’خیر الماعون في منع الفرار من الطاعون’‘لکھی۔اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں ایک مقدمہ اور ایک باب ہے،جس میں طاعون کے علاقہ سے فرار کی ممانعت کا حکم کتاب و سنت اورآثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت کیا ہے۔یہ حصہ ۴۶ صفحات پر مشتمل ہے۔جو ۱۵ مئی ۱۹۰۶ء میں رضوانی پریس کلکتہ سے مولوی ابو المحاسن فصیح الرحمن صاحب شاہ آبادی کی اعانت سے شائع ہوا۔طاعون کی وبا کے ایام میں بعض علماے کرام نے فرار من الطاعون کے جواز کا فتویٰ دیا کہ طاعون کے مقام سے نکل کر آس پاس کے باغوں اور جنگلوں وغیرہ میں جانا جائز ہے۔حتیٰ کہ مولانا محمد سلیم فراہی(المتوفی ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء)نے ایک مستقل کتاب لکھی کہ فرار کی ممانعت اقلیم سے نکلنے کی ہے۔طاعون والی بستی سے فرار کی ممانعت نہیں،مگر اس پر اپنے نام کی بجائے مولوی محمد عبداللہ مئوی کا نام لکھا۔‘‘(تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۳۱۶)