کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 230
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں : ’’وہذا مذہب الجمہور خلافا للحنفیۃ‘‘ ’’یہ(امام کے پیچھے الحمد پڑھنا)جمہور کا مذہب ہے،حنفیہ کا اس میں اختلاف ہے۔‘‘ خود امام ابو حنیفہ کے ایک شاگرد عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں : ’’أنا أقرأ خلف الإمام،والناس یقرؤن إلا قوم من الکوفیین‘‘ ’’یعنی میں امام کے پیچھے پڑھتا ہوں اور لوگ پڑھتے ہیں،مگر کوفہ والوں میں ایک قوم کا اس پر عمل نہیں ہے۔‘‘(تحقیق الکلام: ۱/۱،۲) تحقیق الکلام دو ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں احادیثِ صحیحہ صریحہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے الحمد پڑھنا واجب ہے،بغیر الحمد پڑھے اس کی نماز درست نہیں۔پھر اس کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے فتوے لکھے گئے ہیں۔ دوسرے باب میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کسی دلیلِ صحیح سے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی نادرستی و کراہت ثابت نہیں ہے۔نہ کسی آیت سے نہ کسی حدیثِ مرفوع صحیح سے۔جتنی روایتیں قراء ت خلف الامام کی حرمت و نادرستی یا کراہت میں پیش کی جاتی ہیں،سب کو نقل کر کے نہایت وضاحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ ان میں اکثر روایتیں تو جھوٹی اور بنائی ہوئی ہیں،جیسے انگارا اور کنکر پتھر والی حدیث اور بعض محض بے اصل وبے سرو پا ہیں اور بعض جو صحیح ہیں ان سے قراء ت خلف الامام کی حرمت یاکراہت کسی طرح ثابت نہیں ہوتی۔(تحقیق الکلام: ۱/۸) محقق اہلِ حدیث مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’قراء ت فاتحہ خلف الامام معرکہ آرا مسئلہ پر یہ کتاب مشتمل ہے،جو اپنے موضوع پر نہایت جامع اور مکمل ہے اور اسلوبِ تحریر نہایت شگفتہ اور عام فہم ہے۔‘‘ (مقالاتِ مبارک پوری،ص: ۴۳)