کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 229
عموماً اور رسالہ ہدایۃ المعتدی و رسالہ فاتحۃ الکتاب و ابواب قراء ت آثار السنن کا خصوصاً کافی اور شافی جواب دیا گیا ہے اور حصہ دوم میں رسالہ الفرقان کا خاص طور پر جواب لکھا گیا ہے۔‘‘ مولانا حافظ محمد عبدالرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اس مسئلہ میں اگرچہ ائمہ اربعہ کے درمیان اتفاق نہیں،لیکن اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو ناجائز کہا ہے تو امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور امام مالک رحمہم اللہ نے جائز بتایا ہے،بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تو امام کے پیچھے الحمد پڑھنا فرض ہے۔ان ائمہ ثلاثہ کے علاوہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اکثر تابعین رحمہم اللہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل اور فاعل تھے اور جمہور علما کا یہی مذہب ہے۔ جامع ترمذی میں ہے: ’’والعمل علیٰ ھذا الحدیث في القراء ۃ خلف الإمام عند أکثر أہل العلم من أصحاب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم والتابعین وھو قول مالک بن أنس وابن المبارک والشافعي وأحمد و إسحاق یرون القراء ۃ خلف الإمام’‘ یعنی اس حدیثِ عبادہ[1] پر عمل ہے اکثر اہلِ علم کا،اصحابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین سے اور یہی قول مالک بن انس،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق یہ سب لوگ قراء ت خلف الامام کے قائل ہیں۔
[1] حدیث عبادۃ: عن عبادۃ بن الصامت أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قال:((لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب))(بخاري،مسلم،ترمذي،أبو داوٗد،نسائی،ابن ماجہ)’’یعنی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورت الفاتحہ نہ پڑھی۔‘‘اس حدیث کو بخاری،مسلم،ترمذی،ابو داوٗد،نسائی اور ابن ماجہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔