کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 226
بالحدیث ہونے کی وجہ سے اہلِ حق ہیں۔‘‘(أحسن الکلام،ص: ۱۲،۱۳) مگر احسن الکلام کے مولف جہری نمازوں میں تو کجا سری نمازوں میں بھی فاتحہ خلف الامام پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔لکھتے ہیں : ’’سری نمازوں میں بھی امام کے پیچھے قراء ت کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ مستحب،پھر ضروری کہاں سے ہو گیا؟‘‘(أحسن الکلام: ۱/۲۸۲) بلکہ وہ تو قراء ت خلف الامام کو بدعت قرار دیتے ہیں۔چنانچہ ایک اثر کی سند کو بزعم خویش ثابت کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’امام کے پیچھے قراء ت کرنے کے بدعت ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت مل سکتا ہے؟‘‘(أحسن الکلام: ۱/۲۲۸) یہی نہیں بلکہ وہ تو احسن الکلام میں جمع کردہ دلائل کو دیکھ لینے کے بعد امام کے پیچھے سورت الفاتحہ پڑھنے والوں کے منہ میں آگ ڈالنے کا حکم فرماتے ہیں۔ چنانچہ اسی مفہوم کا ایک اثر نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’صحیح حدیث کی مخالفت کرنے والے کے حق میں یہ الفاظ زیادہ سنگین نہیں ہیں۔ہاں البتہ ان دلائل سے جو شخص نا واقف ہو اور نا واقفی بھی محض دیانت پرمبنی ہو تو اس کے لیے مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔خصوصاً وہ حضرات جو دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور جن کی نگاہوں سے اس طرح یکجا کیے ہوئے دلائل نہیں گزر سکے۔مگر یہ دیکھ کر ضد کرنے والے کے لیے یہ الفاظ بالکل مناسب ہیں۔‘‘(أحسن الکلام: ۱/۳۱۷) اس کے بعد مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مولف احسن الکلام کی یہی بے اعتدالی اور حد سے زیادہ گرم گفتاری ہماری اس کتاب کا باعث بنی،تاکہ بتلایا جائے کہ قراء تِ خلف الامام صحیح احادیث سے ثابت ہے اور ان کی صحت کی بنا پر ہی ہر دور میں خود علماے احناف کا ایک عظیم الشان