کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 212
یہ کتاب’’عون المعبود’‘کی شرح ابی داوٗد کی طرح چار ضخیم جلدوں میں ہے اور چاروں چھپ چکی ہیں۔‘‘(تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۴۰۲،۴۰۳) حضرت محدث مبارک پوری کے تلمیذِ رشید اور’’تحفۃ الأحوذي’‘کی تکمیل میں معاون شیخ الحدیث مولانا ابو الحسن عبیداللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۴۱۴ھ)’’تحفۃ الأحوذي’‘کے بارے میں فرماتے ہیں : الحمدللہ کہ علما کی یہ دیرینہ قلبی تمنا پوری ہو گئی ہے۔اربابِ علم و فضل کو جس قسم کی شرح ترمذی کا مدت سے انتظار و اشتیاق تھا،اس کی پہلی جلد ۱۳۴۶ھ میں’’تحفۃ الأحوذي’‘کے نام سے طبع ہو کرمنصہ شہود پر آ گئی ہے۔اس کے بعد چند برسوں میں اس کی بقیہ تین جلدیں بھی شائع ہو کر بہت تھوڑی مدت میں دنیاے اسلام میں پھیل گئیں۔علماے عرب و عجم نے غیر معمولی طور پر اس کو پسندیدگی اور قبولیت کی نظر سے دیکھا۔ حضرت العلامہ ابو العلی عبدالرحمن مبارک پوری۔نوراللّٰہ مرقدہ و برد مضجعہٗ۔نے اس مبارک شرح میں جن مفید اور ضروری امور کا التزام و لحاظ کیا ہے،ان کا مجموعہ کسی دوسری شرح میں نہیں ملے گا۔ان امور کی تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں۔ان میں بعض مختصر درج کیے جاتے ہیں : 1۔جامع ترمذی کے ہر راوی کا ترجمہ بقدرِ ضرورت لکھا گیا ہے۔ 2۔جامع ترمذی کی تمام حدیثوں کی تخریج کی گئی ہے،یعنی اس کتاب کی حدیثوں کو امام ترمذی کے علاوہ جن اور محدثین نے اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے،ان کا اور ان کی کتابوں کا نام بتا دیا گیا ہے۔ 3۔امام ترمذی نے’’وفي الباب’‘کے عنوان سے جن احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے،ان کی مفصل تخریج کی گئی ہے اور ان احادیث کے الفاظ بھی اکثر مقامات