کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 210
1۔حسنِ ترتیب اور عدمِ تکرار ہے۔ 2۔فقہا کے مذاہب کا ذکر ہے۔ 3۔حدیث کی انواع: صحیح و حسن،ضعیف،غریب اور معلل وغیرہ بھی بیان کیے ہیں۔ 4۔اسی طرح راویوں کے اسما و القاب اور ان کی کنیتیں بھی مذکور ہیں۔نیز دیگر فوائد جو علمِ رجال سے متعلق ہیں،اس پر بھی خاصی گفتگو کی گئی ہے۔ (بستان المحدثین،ص: ۱۲۰) ہر محدث نے جمع حدیث کے لیے اپنی کتاب میں کچھ خاص چیزیں پیشِ نظر رکھی ہیں۔امام ترمذی رحمہ اللہ کا مقصودِ اعظم’’بیانِ مذاہب مع استدلال ہے‘‘ علماے اسلام نے جامع ترمذی کے ساتھ پورا پورا اعتنا کیا ہے۔اس کی متعدد شرحیں،حواشی،تعلیقات و مستخرجات لکھے گئے ہیں۔جامع ترمذی کی شروح میں سب سے مشہور شرح امام ابو بکر بن محمد بن عبداللہ بن العربی(المتوفی ۵۴۳ھ)کی’’عارضۃ الأحوذي’‘ہے،جو مصر سے مکمل شائع ہو چکی ہے۔ بر صغیر(پاک و ہند)میں علماے اہلِ حدیث میں مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی(المتوفی ۱۳۲۹ھ)نے’’ہدیۃ اللوذي بنکات الترمذي’‘لکھنی شروع کی،لیکن یہ شرح مکمل نہ ہو سکی۔اس شرح میں علاوہ متن کے اسانید کے متعلق بڑی مفید تحقیقات لکھی گئی ہیں۔(سیرت البخاری،ص: ۴۲۸،طبع دوم،۱۳۶۷ھ) مولانا بدیع الزمان حیدر آبادی(المتوفی ۱۳۰۴ھ)نے جامع ترمذی کا ترجمہ’’جائزۃ الشعوذي’‘کے نام سے کیا۔اس ترجمے کے بارے میں مولانا محمد مستقیم سلفی بنارسی فرماتے ہیں : ’’یہ جامع ترمذی کا مکمل اور عام فہم ترجمہ ہے۔احادیث کا مطلب بلا رعایت مذہب لکھا گیا ہے۔‘‘(جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات،ص: ۵۶)