کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 21
مقامات کے اہلِ علم سے ان کو ممتاز کرتا ہے۔اس اعتبار سے ہم اس بستی کو بجا طور پر’’نیشاپور ہند’‘کہہ سکتے ہیں۔حدیث،فقہ،علمِ کلام،منطق و فلسفہ،تاریخ،سیرت،رجال،سوانح و ادب،زہد و رقائق،طب،مناظرہ اور ہیئت و غیرہ کے موضوعات پر یہاں کے مصنفوں نے عربی،فارسی،اردو اور گجراتی زبانوں میں چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔ان کی متعدد عربی تصانیف ہندوستان سے گزر کر پورے بلادِ عرب،بلکہ عالمِ اسلام میں مقبول ہوئیں اور اہلِ علم اپنی تصانیف میں ان سے استفادہ کرتے ہیں۔‘‘(علماے مبارک پور،ص: ۵۲)
ضلع اعظم گڑھ اور مبارک پور نے ایسے نامور علماے کرام پیدا کیے ہیں،جنھوں نے علم و ادب کی دنیا میں ایسی قابلِ قدر خدمات انجام دیں اور اس وقت بھی دے رہے ہیں کہ برصغیر کی اسلامی تاریخ میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
ضلع اعظم گڑھ میں حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق لہراوی(المتوفی ۱۲۳۶ھ)،مولانا احمد علی چڑیاکوٹی(المتوفی ۱۲۷۲ھ)۔مولانا اختر احسن اصلاحی(المتوفی ۱۳۷۸ھ)،ملا حسام الدین مئوی(المتوفی ۱۳۱۰ھ)،مولانا حفیظ اللہ بندوی اعظمی(المتوفی ۱۳۶۴ھ)،مولانا حمید الدین فراہی(المتوفی ۱۳۴۹ھ)،مولانا خدا بخش مہراج گنجی(المتوفی ۱۳۳۳ھ)،مولاناسلامت اللہ جیراج پوری(المتوفی ۱۳۲۲ھ)،علامہ شبلی نعمانی(المتوفی ۱۳۳۲ھ)،مولانا شبلی جیراج پوری(المتوفی ۱۳۶۴ھ)،مولاناعبدالسلام ندوی(المتوفی ۱۳۷۶ھ)،مولانا عبد القادر مئوی(المتوفی ۱۳۳۱ھ)مولانا حافظ عبداللہ مئوی غازی پوری(المتوفی ۱۳۳۷ھ)،مولانا فیض اللہ مئوی(المتوفی ۱۳۱۶ھ)،مولانا محمد سلیم فراہی(المتوفی ۱۳۲۴ھ)،مولانا ابو المکارم محمد علی مئوی(المتوفی ۱۳۵۲ھ)،مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی(المتوفی ۱۳۲۷ھ)،مولانا علی عباس چڑیاکوٹی(المتوفی ۱۳۰۲ھ)،مولانا نذیر احمد املوی(المتوفی ۱۳۷۵ھ)اور مولانا امین