کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 203
انزوا و عزلت اور سادگی میں اپنی مثال آپ تھے۔دنیا میں رہ کر دنیا سے بے گانہ،درس و تدریس،تصنیف و تالیف،طبابت و حکمت؛ زندگی کے مشاغل تھے۔خشیتِ الٰہی کا غلبہ تھا۔سنا ہے جہری نماز نہیں پڑھاتے تھے،کیوں کہ رو دیا کرتے تھے۔ان کے ایک عزیز شیخ شبلی کاانتقال ہوا تومولانا نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی تو آخری تکبیر میں بے قابو ہو گئے،مشکل سے تکبیر پوری کر سکے۔اس جنازے میں راقم بھی شامل تھا۔مولانا کی قوتِ حافظہ خداداد تھی۔بینائی سے محروم ہو جانے کے بعد بھی بعض درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھایاکرتے تھے اورہرقسم کے فتوے لکھوایا کرتے تھے۔‘‘ (تذکرہ علماے مبارک پور،ص: ۱۵۰) مولانا عبدالغفار حسن عمر پوری رحمہ اللہ : مولانا عبد الغفار حسن عمر پوری رحمہ اللہ کا شمار علماے فحول میں ہوتا ہے۔فرماتے ہیں : ’’حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ اپنے حال و قال اور چال ڈھال میں ہر لحاظ سے سلف صالحین کا نمونہ تھے۔بہت ہی نرم مزاج،متواضع اور خوش اخلاق تھے۔مالی حالت زیادہ اچھی نہ تھی،لیکن اس کے باوجود ان کی شان فیاضانہ تھی۔‘‘ (الاعتصام لاہور،۹ دسمبر ۱۹۹۴ء) مولانا عبد الغفار حسن صاحب سے سوال کیا گیا کہ آپ کی پسندیدہ شخصیت کون سی ہے؟ مولانا عبد الغفار حسن نے جواب میں فرمایا: ’’مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کو میں بہت بڑا عالم سمجھتا ہوں۔وہ میرے پسندیدہ مصنف بھی ہیں،ان کی سوچ اور فکر بڑی متوازن ہے۔ایک لحاظ سے وہ میرے استاد بھی تھے۔وہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں اکثر ٹھہرا کرتے تھے۔میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ایک دفعہ انھوں نے ہمارا امتحان بھی لیا تھا۔میں ان کے زہد و تقویٰ سے بہت زیادہ متاثر تھا۔وہ دنیا کے حریص نہیں تھے۔ان کی کتاب