کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 202
’’مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ حقیقی معنوں میں زاہد تھے۔انھوں نے دنیا کمانے کی کوئی فکر نہیں کی۔آخر عمر میں تو تمام تر ترغیبات کونظر انداز کر کے صرف فنِ حدیث کو لے کر اپنے حجرے میں معتکف ہو گئے تھے۔ان کی زندگی نہایت درویشانہ اور غریبانہ تھی۔حالانکہ اگر وہ چاہتے تو بڑے عیش و آرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے۔وہ پشاور سے لے کر کلکتہ تک اہلِ حدیث علما اور عوام کے مرکزِ عقیدت تھے اور سعودی حکومت بھی کسی زمانے میں ان کی خدمات حاصل کرنے کی متمنی تھی۔لیکن وہ شرح ترمذی کا کام لے کر اس طرح دنیا سے منقطع ہو کر بیٹھ گئے،پھر موت کے سوا ان کے زاویے سے ان کو کوئی دوسرا نہ اٹھا سکا۔‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں : ’’اہلِ علم سے ان کی گفتگو ہمیشہ زیادہ تر مشکلاتِ حدیث کے متعلق ہوتی تھی۔میں نے کبھی ان کی زبان سے کسی شخص کی غیبت یاہجو نہیں سنی۔خرابیِ صحت،آنکھوں کی معذوری،کام کی کثرت اور رفقاے کام کی قلت کا شکوہ بھی کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا۔حالانکہ یہ ساری تکلیفیں فی الواقع ان کو تھیں۔اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی،اگر وہ ان کا ذکر کرتے تو لوگ نہایت عقیدت سے ان کی بات سنتے۔مگر وہ مجسم صبر و شکر تھے۔کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتے۔‘‘(دبستانِ حدیث،ص: ۲۰۰) قاضی اطہر مبارک پوری رحمہ اللہ : برصغیر(پاک و ہند)کے نامور مصنف اور مورخ مولانا قاضی اطہر مبارک پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۹۶ء)جو مولانا عبدالرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے ہم وطن تھے،اپنی کتاب’’تذکرہ علماے مبارک پور’‘میں لکھتے ہیں : ’’مولانا کی زندگی سلف صالحین کا نمونہ تھی۔علم و فضل،تقویٰ و طہارت،زہد و قناعت،