کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 201
سیالکوٹ راقم سے فرمایا کرتے تھے: ’’ہم نے مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کو دیکھا نہیں،لیکن ان کو پڑھا ضرور ہے۔عربی تصانیف میں’’تحفۃ الأحوذي’‘اور’’أبکار المنن’‘میرے مطالعے میں آئی ہیں۔اردو تصانیف میں ان کے تین چار رسائل’’کتاب الجنائز،تحقیق الکلام،المقالۃ الحسنیٰ اور خیر الماعون’‘تو میں نے خود جامعہ ابراہیمیہ سے شائع کیے۔خیر الماعون کی کمپوزنگ ہو چکی ہے،ان شاء اللہ العزیز بہت جلد یہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو گی۔‘‘[1] تحقیق الکلام اور کتاب الجنائز اپنے اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی جامع اور عمدہ کتابیں ہیں۔ان کتابوں کے مطالعے سے مولانا مبارک پوری کے تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔تحفۃ الاحوذی کے مطالعے میں حدیث اور متعلقاتِ حدیث پر ان کی ژرف نگاہی اور فنِ اسماء الرجال اور الجرح والتعدیل پر ان کے عبور کامل ہونے کا پتا چلتا ہے۔حدیث میں ان کے کامل الفن ہونے کا اعتراف مولانا شمس الحق ڈیانوی صاحبِ عون المعبود رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی علمی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اور ان کامقام علیین میں کرے۔ مولانا امین احسن اصلاحی: مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۹۷ء)حضرت مبارک پوری کے تلمیذ رشید تھے۔علمِ حدیث میں جامع ترمذی اور نخبۃا لفکر کا درس آپ سے لیا تھا۔وہ اپنے ایک مضمون جو ہفت روزہ’’المنبر’‘لائل پور(فیصل آباد)اگست ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا تھا،لکھتے ہیں :
[1] مولانا جانباز رحمہ اللہ یہ کتاب شائع نہیں کر سکے۔جلد اول کی کمپوزنگ مکمل ہو چکی تھی اور جلد دوم کی کمپوزنگ ابھی باقی تھی کہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے اور ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ۔(عراقی)