کتاب: تذکرہ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 200
پڑے گا۔فرمایا: کوئی بات نہیں۔چنانچہ جب روانگی کا وقت ہوا اور میں اپنابیگ اٹھا کر اپنے مسجد والے حجرے سے باہر نکلا تو مولانا کو موجود پایا،پھر ہم باتیں کرتے ہوئے وہاں پہنچے،جہاں وہ دونوں حضرات گاڑی لے کر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔رخصت کے وقت جب انھوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا:’’أستودع اللّٰہ دینک وأمانتک وخواتیم عملک،زوّدک اللّٰہ التقویٰ و یسر لک الخیر أینما توجھت’‘تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے چپکے سے میرے ہاتھ میں کوئی کاغذ تھما دیا۔میں نے محسوس کیا کہ نوٹ کی شکل میں کچھ رقم ہے تو میں نے واپس کرنا چاہا اور کہا:’’جزاک اللّٰہ’‘آپ نے لطف و کرم کی انتہا کر دی،اس کی کیاضرورت ہے؟ اس پر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا،ان دونوں حضرات سے کچھ دور ہوئے توزور زور سے رونے لگے۔ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور کہے جا رہے تھے: لے لو اسے،لے لو اسے۔چنانچہ میں نے وہ روپیا لے لیا۔ ان کا رونا دیکھ کر میرے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی اور میں بہت شرمندہ ہوا کہ میرا روپیا لوٹانا ہی ان کے شدید گریہ کا سبب بنا۔چنانچہ میں نے ان سے معافی چاہی اور انھوں نے معاف کر دیا۔سسکیاں لیتے ہوئے آنکھوں سے آنسو پونچھے اور ذرا سنبھلے تو میرا ہاتھ پکڑا اور گاڑی کی طرف بڑھے۔پھر میں نے ان کو الوداع کیا اور گاڑی پر سوار ہو گیا۔یہ تمام خیالات اور انفعالات میرے ذہن میں گھومتے رہے،یہاں تک کہ فجر کا وقت ہو گیا تو ہم لوگ نماز کے لیے رکے۔میں نے ان دونوں حضرات کی امامت کی۔جب میں نے قراء ت کی شروع کی تو اس واقعے تصور سے رو پڑا۔‘‘(دبستانِ حدیث،ص: ۲۰۲،بحوالہ مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری،ص: ۲۲۶ تا ۲۲۸) مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ : شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ(المتوفی ۲۰۰۸ء)سابق مہتمم جامعہ رحمانیہ